مودی کی والدہ کے بارے میں نازیبا الفاظ نشر، بی بی سی پر پابندی کا مطالبہ

بی بی سی ایشین نیٹ ورک پر پیر کو برطانیہ میں نشر ہونے والے اس سیگمنٹ کے بعد بدھ کو سارا دن بھارت میں ٹوئٹر پر ’بین بی بی سی‘ اور ’بائیکاٹ بی بی سی‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ پر رہے۔

(تصویر: فائل فوٹو/ اے ایف پیل/ گجرات بھارتیہ جنتا پارٹی)

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بھارت میں اس وقت شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جب ایک براہ راست ریڈیو پروگرام کے دوران ایک کالر نے ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نازیبا الفاط کا استعمال کرتے ہوئے انہیں کھری کھری سنا دیں۔

بی بی سی ایشین نیٹ ورک پر پیر کو برطانیہ میں نشر ہونے والے اس سیگمنٹ کے بعد بدھ کو سارا دن بھارت میں ٹوئٹر پر ’بین بی بی سی‘ اور ’بائیکاٹ بی بی سی‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ پر رہے۔

اس پروگرام کو ’برٹش انڈینز وائس‘ نامی ایک معروف اکاؤنٹ سے ریکارڈ اور پوسٹ کیا گیا تھا۔

دراصل ’بگ ڈیبیٹ‘ نامی شو میں اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ آیا بی بی سی پر ایک طویل عرصے سے چلنے والے سوپ اوپیرا ’ایسیٹنڈرز‘ میں پگڑی کو بطور تاج پکارنے پر سامعین کو فخر محسوس ہوا یا نہیں۔

تب ہی سائمن نامی ایک سکھ کالر نے پروگرام میں شامل ہو کر اس بحث کا رخ بھارت میں جاری کسانوں کے احتجاج کی جانب موڑ دیا۔

کئی ماہ سے جاری اس احتجاج میں بھارت کی شمالی زرعی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے بہت سے سکھ شریک ہیں۔

سکھ کالر نے پروگرام میں کہا: ’بات ختم ہونے سے پہلے میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔‘ اس کے بعد انہوں نے مودی کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کیے اور پنجابی میں ان کی (نریندر مودی) والدہ کے بارے میں نازیبا باتیں کیں۔

شو کی میزبان پریا رائے نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہیں اور تب تک سائمن کے توہین آمیز تبصرے براہ راست نشر ہو چکے تھے۔

کالر سے رابطہ منقطع کرتے ہوئے شو کی میزبان نے کہا: ’ٹھیک ہے، رک جایے، یہاں ایک سیکنڈ رکیے۔ سائمن آپ کے فون کرنے کا بہت شکریہ۔‘

بی بی سی نے اس پروگرام کو بعد میں اپنی ویب سائٹ پر نشر کرنے سے قبل اس میں سے اس ناگوار حصہ کو ایڈٹ کر دیا اور شو کی میزبان نے بھی اس پر آن ایئر معذرت کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ہم اس ایک مہمان کی جانب سے استعمال کی گئی زبان پر معذرت چاہتے ہیں۔ یہ ایک براہ راست شو ہے اور ہم متنازع امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں لیکن اس میں جو زبان استعمال کی گئی اس کی وجہ نہیں ہو سکتی اور اس کی وجہ سے ہونے والی دل آزاری پر میں دوبارہ معذرت خواں ہوں۔‘

لیکن پہلے ہی آن لائن شیئر کردہ مکمل کلپ سے نقصان ہو چکا تھا جس پر بہت سے افراد نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔

’برٹش انڈین وائس‘ نے اپنی ایک ٹویٹ میں برطانیہ کے ریگولیٹر ’آف کام‘ سے مطالبہ کیا کہ ’براڈکاسٹر کے لائسنس کا جائزہ لیا جائے کیوں کہ اس سیگمنٹ میں جو نازیبا زبان استعمال کی گئی اس کا واحد مقصد خواتین کے وقار کو مجروح کرنا تھا۔‘

نریندر مودی کی حکمران جماعت بی جے پی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دہلی کے ایک سیاستدان تجیندر پال سنگھ بگا نے کہا کہ بی بی سی کا بائیکاٹ کافی نہیں ہے اور بھارت کو براڈ کاسٹر پر پابندی لگانی چاہیے۔ تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے جب تجیندر پال سنگھ بگا نے اس طرح کا مطالبہ کیا ہو۔

بی جے پی کے ایک اور سیاست دان امت ٹھاکر نے نشر کیے جانے والے تبصروں کو ’انتہائی توہین آمیز اور شرمناک‘ قرار دیا۔

وزیر اعظم مودی کے خلاف یہ تبصرے اس وقت سامنے آئے جب متنازع زرعی قوانین کے خلاف دہلی کے باہر مظاہرے جاری ہیں۔

ان متنازع قوانین کے بارے میں کسان یونینز کا کہنا ہے کہ ان سے بڑے کارپوریشنز کی جانب سے کسانوں کا استحصال کرنے کی راہیں کھلیں گی۔

دوسری جانب بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ زرعی اصلاحات طویل عرصے سے ناگزیر تھیں اور کاشتکاروں کو ان سے طویل مدتی فائدہ پہنچے گا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل