انڈپینڈنٹ اردو، بی بی سی کو دھمکیاں، کارروائی کا مطالبہ

صحافیوں کے تحفظ پر کام کرنے والے ادارے آر ایس ایف نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ’انڈپینڈنٹ اردو‘ اور ’بی بی سی اردو‘ کے صحافیوں کے خلاف جاری آن لائن مہم کی مذمت کرے اور دھمکیاں دینے والوں پر مقدمہ کرے۔

پاکستان آر ایس ایف کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس پر 180 میں 145ویں نمبر پر ہے۔(اے ایف پی فائل)

صحافیوں کے تحفظ پر کام کرنے والے ادارے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں کام کرنے والے دو برطانوی میڈیا اداروں ’دی انڈپینڈنٹ‘ اور ’بی بی سی‘ کی اردو سروس کے خلاف جاری آن لائن مہم کی مذمت کرے اور ان کے صحافیوں کو دھمکیاں دینے والوں پر مقدمہ کرے۔  

 جمعرات کو اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں آر ایس ایف نے کہا کہ گذشتہ دو ہفتوں میں ہزاروں پاکستانی انٹرنیٹ صارفین نے ان دونوں اداروں کی اردو سروس کے بائیکاٹ کی کالیں دی ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے صحافیوں کو دھمکیاں دی ہیں۔

بیان کے مطابق دو جنوری کو پاکستان کی حکمراں جماعت کی حمایت پر مبنی خبریں اور مباحثے چھاپنے والی ویب سائٹ ’سیاست ڈاٹ پی کے‘ نے ایک ویڈیو جاری کی جو ’بی بی سی اردو‘ کے صحافیوں کے ’ذاتی خیالات اور سیاسی جھکاؤ‘ پر تنقید کرتی ہے۔ ٹوئٹر پر ہزاروں صارفین کی جانب سے شیئر کی جانے والے اس ویڈیو میں ’بی بی سی‘ پر ایسی اداراتی پالیسی رکھنے کا الزام لگایا ہے جو ’۔۔۔ حکومت کے خلاف ہے۔‘

جس وقت یہ ویڈیو شائع ہوئی تب ہی بی بی سی اردو کے دس صحافیوں کے نام، عہدے اور ٹوئٹر اکاؤنٹس کی معلومات بھی آن لائن پوسٹ کی گئیں۔

آر ایس ایف کے مطابق اس ویڈیو پر دی جانے والی رائے کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہم کچھ ایسے کالم اور ایڈیٹوریل کے چھپنے کے بعد شروع کی گئی ہے جنہیں حکام کی بے جا تنقید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔  

عاصمہ شیرازی ان دس صحافیوں میں سے ایک ہیں جن پر آن لائن حملے کیے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2014 میں جرات اور اخلافی صحافت کے لیے پیٹر میکلر ایوارڈ جیتنے والے عاصمہ شیرازی نے آر ایس ایف کو بتایا: ’مجھے کہا جا رہا ہے کہ میں کم تنقید کروں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مجھے ایسی دھمکیاں ملی ہوں۔ اپنی رائے کے لیے مجھ پر اکثر ایسی تنقید ہوتی ہے۔ یہ آن لائن مہم پیشہ ورانہ اور آزاد صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے ایک بڑی سکیم کا حصہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ انہیں دھمکی آمیز کالز بھی موصول ہو چکی ہیں۔ ایک کالر نے ان کو کہا کہ اگر انہوں نے بی بی سی کے لیے تنقیدی کالم لکھنا نہ چھوڑے تو ان کو ’سرپرائز  مل سکتا ہے۔‘

عاصمہ نے کہا: ’مجھے نہیں پتہ وہ مجھے کیا سرپرائز دے سکتے ہیں۔ ایک سرپرائز سڑک کنارے کسی سرچ کے دوران میری گاڑی میں منشیات یا دھماکہ خیز مواد کی دریافت ہو سکتا ہے۔‘

دسمبر کے اواخر میں لندن کے اخبار دی انڈپینڈنٹ کی اردو سروس ’انڈپینڈنٹ اردو‘ کے صحافیوں کو بھی دھمکیاں دی گئیں جب اس پر پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے ایک خبر چھپی۔ انہیں فوجیوں کو ’شہید‘ نہ کہنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

’انڈپینڈنٹ اردو‘ کے ایڈیٹر نے آر ایس ایف کو بتایا کہ ان کا عملہ اس نفرت آمیز مہم سے پریشان ہے۔ ٹوئٹر پر ہزاروں صارفین نے بائیکاٹ انڈی اردو کا ٹرینڈ چلایا اور اس پر پابندی کا مطالبہ کیا۔

آر ایس ایف کے ایشیا پسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل باسٹرڈ نے کہا: یہ اقدام ناصرف آزادی صحافت کو خطرہ ہیں بلکہ ان صحافیوں کے لیے بھی نہایت خطرناک ہیں جنہیں جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’حکام کو تنقید کا نشانہ بننے والوں کو ڈرانے اور خاموش کرنے کے مقصد سے صحافیوں کو قتل کرنے کا مطالبہ کرنا قطعی ناقابل قبول ہے۔ ہم وفاقی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس کی مذمت کرے اور پراسیکیوٹر آفس سے درخواست کرتے ہیں دھمکی دینے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔‘

اس سے قبل آر ایس ایف نے اگست 2020 میں بھی حکومت پر خواتین صحافیوں کے خلاف چلنے والی آن لائن مہم کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے میں ناکام رہنے پر تنقید کی تھی۔

پاکستان آر ایس ایف کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس پر 180 میں 145ویں نمبر پر ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان