طلبہ نے بی بی سی کی مودی پر فلم کی عوامی سکرینگ شروع کر دی

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں دستاویزی فلم کی نمائش کی کوشش کو حکام نے روک دیا تھا، جس کی وجہ سے نوجوانوں نے ذاتی آلات پر گروپ کی صورت میں اسے دیکھا۔ اس اجتماع پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔

سات جنوری 2020 کو نئی دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ اور اساتذہ پر حملے کے خلاف احتجاج کے دوران ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا اور سٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا کے ارکان نے پلے کارڈز اٹھا رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں (اے ایف پی)

حزب اختلاف کی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں سے وابستہ نوجوانوں کی تنظیموں نے منگل کو برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے بنائی گئی دستاویزی فلم کی پہلی قسط کیرالہ بھر میں دکھائی اور سوشل میڈیا پر اس پر پابندی لگانے کے حالیہ اقدام کے خلاف احتجاج درج کروایا۔

دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں بھی اسی طرح کی ایک کوشش کو حکام نے روک دیا جس کے نتیجے میں ذاتی آلات پر گروپ کی صورت میں اسے دیکھنے کا عمل شروع ہو گیا تھا۔

 کے انڈیا: دی مودی کویسچن نامی

اخبار دا ہندو کے مطابق جواہر لال نہرو یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین (جے این یو ایس یو) کے دفتر ٹیفلاس کے زیادہ تر حصوں میں بجلی منقطع ہونے کی وجہ سے جے این یو کیمپس اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔ چونکہ سکریننگ نہیں ہو سکی تو یونین نے دستاویزی فلم کا لنک شیئر کیا اور بڑی تعداد میں جمع ہونے والے طلبہ نے اسے اپنے فون پر ایک ساتھ دیکھا۔

جے این یو ایس یو کی صدر آئشی گھوش نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’آپ ایک سکرین کو بند کر سکتے ہیں لیکن اس کے بجائے اٹھنے والے ہزاروں لوگوں کو نہیں روک سکتے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک ایڈوائزری کے باوجود کہ اس طرح کی ’غیر مجاز سرگرمی‘ کیمپس کے امن اور ہم آہنگی میں خلل ڈال سکتی ہے، طلبہ وہاں پہنچے۔

مس گھوش نے کہا کہ ’یونین نے سکریننگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کا کام ’جمہوریت کو مضبوط کرنا‘ تھا اور وہ ایسا کرنا جاری رکھے گی۔

18 اپریل 2018 کو وزیراعظم آفس کی ایک ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں کہا گیا تھا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ اس حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ تنقید جمہوریت کو مضبوط بناتی ہے‘، آئشی گھوش نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ جے این یو انتظامیہ نے کچھ سال پہلے ہمارے وزیراعظم کی ٹویٹ کو یاد کیا۔۔۔ ہم ان کی باتوں کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اے بی وی پی (اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد) یا انتظامیہ کو اس دستاویزی فلم کی نمائش سے کوئی مسئلہ تھا، جسے مرکز چھپانے کی کوشش کر رہا ہے، تو وہ متوازی پروگرام کر سکتے تھے۔ یہ اختلاف رائے کا کلچر ہے جو ہمارے کیمپس میں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’طلبہ جمہوریت اور اختلاف رائے کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔‘

جب نوجوان اندھیرے میں فلم دیکھ رہے تھے تو اجتماع پر پتھراؤ کیا گیا۔ طلبہ کے درمیان تھوڑی دیر کے جھگڑے کے بعد جے این یو ایس یو کی جانب سے کیمپس کے شمالی گیٹ تک ایک مارچ کا انعقاد کیا گیا جس میں بجلی بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

ایک طالب علم نے کہا کہ کیمپس میں محفوظ واحد جگہ گیٹ پر ہے کیونکہ کیمپس کے باقی حصے اندھیرے اور غیر محفوظ ہیں۔ آئشی گھوش کیمپس سے باہر نکل گئیں اور باہر کھڑے دہلی پولیس کے افسروں سے درخواست کی کہ وہ کیمپس میں بجلی بحال کریں۔

بائیں بازو کی حمایت یافتہ جے این یو ایس یو کے دستاویزی فلم کی نمائش کے منصوبے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اے بی وی پی نے کہا کہ ’برطانوی ساختہ بیانیے‘ کی حمایت کرنا ’برطانوی سپاہیوں کی نوآبادیاتی ذہنیت‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ حزب اختلاف اور نام نہاد طلبہ تنظیمیں درحقیقت برطانوی کٹھ پتلی ہیں جو بھارتی تعلیمی اداروں میں پراپیگنڈے پر مبنی بی بی سی دستاویزی فلم کو فروغ دے رہی ہیں۔

سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) نے ایک بیان میں کہا کہ اس کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے مودی حکومت کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے تمام ریاستوں میں دستاویزی فلم دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ حکام نے اے بی وی پی کو ’کشمیر فائلز‘ دکھانے کی اجازت دے دی ہے جو آر ایس ایس - بی جے پی کی سیاست کی ایک پراپیگنڈا فلم ہے، لیکن مرکزی یونیورسٹیاں/ ادارے اس دستاویزی فلم کی نمائش منسوخ کرنے کے احکامات دے رہے ہیں۔

مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے بی بی سی دستاویزی فلم کی پہلی قسط کو بلاک کرنے کی ہدایت بھی جاری کی ہے۔ ایس ایف آئی مرکزی حکومت کے اس آمرانہ اقدام کی مذمت کرتی ہے۔

کیرالہ میں تناؤ

کیرالہ میں سی پی آئی (ایم) اور کانگریس سے وابستگی رکھنے والی طلبہ اور نوجوان تنظیموں کی جانب سے دستاویزی فلم کی عوامی نمائش پر سیاسی درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی اور حریف پارٹی کارکنوں کے درمیان تناؤ پیدا ہوگیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترواننت پورم کے پوجاپورہ میدان میں عوامی نمائش میں خلل ڈالنے کی کوشش کرنے والے بی جے پی کارکنوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا جبکہ کوچی میں انہوں نے بی جے پی کارکنوں کو مہاراجہ اور گورنمنٹ لا کالج میں سکریننگ کے مقامات پر گھسنے سے روک دیا۔

بی جے پی کارکنوں نے کوزی کوڈ میں پولیس کمشنر کے دفتر تک مارچ کیا اور سکریننگ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ کنور یونیورسٹی میں بھی طلبہ نے دستاویزی فلم دکھائی۔ بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی نے پولیس کو کسی بھی تشدد کو روکنے کے لیے بڑی تعداد میں تعینات کرنے پر مجبور کیا۔

سکریننگ کی بی جے پی قیادت کی جانب سے مذمت کی گئی۔ مرکزی وزیر مملکت برائے امور خارجہ وی مرلی دھرن نے چیف منسٹر پنارائی وجین پر زور دیا کہ وہ ان پر پابندی عائد کریں کیونکہ ان کا مقصد کیرالہ کو شورش زدہ ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر کے سریندرن نے وجین کو لکھے ایک کھلے خط میں کہا کہ دستاویزی فلم میں بے بنیاد الزامات کو سپریم کورٹ نے جھوٹا قرار دیا ہے۔

ایک اور پیش رفت میں اے بی وی پی نے حیدرآباد یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے پاس شکایت درج کروائی ہے اور 21 جنوری کو دستاویزی فلم دکھانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار نے اس معاملے پر ایک رپورٹ طلب کی ہے۔

کیمپس سکیورٹی نے اس سے پہلے اسے روکنے کی کوشش کی تھی، لیکن سکریننگ کی حمایت میں اساتذہ اور طلبہ کے ایک حصے نے کہا کہ دستاویزی فلم پر پابندی عائد نہیں کی گئی ہے کیونکہ مرکز نے صرف ٹوئٹر اور یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کو اس کے ویب لنکس ہٹانے کے لیے کہا ہے۔

حالانکہ اے بی وی پی رہنماؤں نے الزام لگایا کہ کیمپس میں امن خراب کرنے کے لیے یہ ایک مذموم منصوبہ ہے۔ ریسرچ سکالر اور اے بی وی پی کے رکن مہیش نمانی نے کہا: ’سکریننگ کی کیا ضرورت ہے جب ہر کوئی اپنے گیجٹ پر اسے دیکھ سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس