انڈین سپریم کورٹ کی چھ برس بعد مودی اقدام کی حمایت

انڈین سپریم کورٹ نے چھ سال بعد وزیر اعظم مودی کا کرپشن کے خلاف بڑے نوٹوں کی بندش کا فیصلہ درست قرار دے دیا۔

ایک پھل فروش نو مئی 2022 کو ممبئی میں کرنسی نوٹ گنتے ہوئے (اے ایف پی)

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کا کرپشن کے خلاف بڑے نوٹوں کی بندش کا فیصلہ درست قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے چھ سال بعد اس اقدام کی حمایت کر دی۔

انڈیا کے حکومتی فیصلے کی قانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا اور بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ میں سے چار ججز اس فیصلے کے حق میں تھے جب کہ ایک نے اختلاف رائے کا اظہار کیا۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے پیر کو 2016 میں ملک کی گردش میں 86 فیصد نقدی کے خاتمے کے حکومتی فیصلے کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ مرکزی بینک کی مشاورت سے لیا گیا تھا اور مناسب عمل کی پیروی کی گئی تھی۔

نومبر 2016 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ذاتی طور پر غیر اعلانیہ ’کالے دھن‘ کو نشانہ بنانے اور بدعنوانی کے خلاف لڑنے کے لیے گردش میں موجود 86 فیصد نقد رقم کو جو پانچ سو اور ہزار روپے کے نوٹوں پر مبنی تھی غیرقانونی قرار دینے کا حیران کن فیصلہ کیا تھا۔ اسے نوٹ بندی کا نام دیا گیا ہے۔ اس دوران انڈیا کی ایک حد تک بڑے پیمانے کی کیش پر منحصر معیشت کو بری طرح سے نقصان پہنچایا۔ لاکھوں لوگ اپنی نقدی کے تبادلے کے لیے بینکوں کے باہر دنوں تک قطار میں کھڑے رہے۔

اس فیصلے پر سپریم کورٹ کی اکثریتی رائے میں جسٹس بی آر گوائی نے اپنے اور جسٹس ایس عبدالنذیر، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی رام سبرامنیم کے لیے لکھے فیصلے میں آئینی بینچ کے سامنے رکھے سوالات کو چھ مسائل کے طور پر بیان کیا۔

جسٹس بی وی ناگرتنا نے اپنے اختلافی فیصلے میں اکثریت کی رائے میں دلائل اور نتائج سے اختلاف کیا۔

حکومت نے اپنے اس اقدام کا دفاع کیا ہے، جس کا اصل مقصد انڈیا کی ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینا اور کالے دھن اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے مسئلے کو حل کرنا تھا۔

بڑے نوٹوں پر پابندی کا مقصد کیا تھا؟

بڑے نوٹوں سے مراد 500 سے لے کر 1000 روپے کے نوٹ ہیں۔ ان کی مدد سے کسی کو رشوت دینا یا مثال کے طور پر گاڑی یا پلاٹ خریدنے کے لیے روپیہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہے۔ لیکن اگر لاکھوں یا کروڑوں کی رقم چھوٹے نوٹوں میں دی جائے تو یہ کام خاصا مشکل ہو جائے گا۔ انڈین حکومت کا خیال تھا کہ نوٹ بندی کے ذریعے؛

  • لوگ آن لائن یا بینکوں کے ذریعے رقم کا لین دین کریں گے تاکہ ایسی ساری ٹرازیکشنز ریکارڈ میں آ جائیں۔
  • بڑے نوٹوں پر پابندی سے غیر قانونی لین دن پر قابو پایا جا سکے گا۔
  • جعلی نوٹوں کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔
  • جرائم پیشہ افراد جو جعلی کرنسی استعمال کرتے ہیں اس میں کمی واقع ہو گی۔

انڈیا کے وزیرخزانہ ارون  جیٹلی نے2017 میں میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’بڑے نوٹوں پر پابندی کا واحد مقصد یہ نہیں تھا کہ کالے دھن پر قابو پا لیا جائے گا، بلکہ اس کے اور بھی مقاصد تھے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے اعداد و شمار کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نوٹ بندی کا قانون ٹیکس دینے والوں میں اضافے، پیسے کو ڈیجیٹائز کرنے اور رسمی اور غیر رسمی معیشت کے انضمام  کے لیے بنایا گیا تھا۔ لیکن بھارت میں نوٹ بندی کا قانون ناکام ہو گیا۔‘

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق: اس سے لوگوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، چھوٹے کاروباروں میں خلل پڑا اور ملک کی اقتصادی ترقی کو شدید نقصان پہنچا۔

تاہم، ماہرین کے ایک حصے اور سیاسی اپوزیشن نے نوٹ بندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان باتوں میں سے ایک جس نے اس تنقید کو جنم دیا ہے وہ یہ ہے کہ نوٹ بندی کی گئی زیادہ تر کرنسی نظام میں واپس آگئی، جس سے بڑی مقدار میں کالے کیش کو ختم کرنے کی امیدیں ختم ہوگئیں۔

تاہم، سپریم کورٹ نے کرنسی نوٹوں کو گردش سے باہر نکالنے کے حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا اور کہا کہ نوٹیفکیشن کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا، اس دلیل کے باوجود کہ نوٹ بندی کا ابتدائی ہدف حاصل نہیں ہوا تھا۔

2023 میں عدالتی فیصلے کا کیا مطلب

بھارتی معیشت اور معاشرہ، اب تک چھ سالوں میں نوٹ بندی کے فیصلے کے جھٹکے کو برداشت کر چکے ہیں۔ بہت سے ماہرین نے کہا ہے کہ عدالتی حکم اب بس ایک ’تعلیمی مشق‘ ہو گی۔

نومبر-دسمبر میں سماعت کے دوران، سپریم کورٹ نے اشارہ دیا تھا کہ وہ نوٹ بندی کو ختم نہیں کر سکتی کیونکہ ’گھڑی کو پیچھے نہیں موڑا جا سکتا۔‘ لیکن عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ یہ دلائل مستقبل میں اس طرح کی مشقوں کے لیے رہنما خطوط وضع کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درخواست گزاروں کے وکیل اور کانگریس لیڈر پی چدمبرم نے دلیل دی ہے کہ حکومت قانونی ٹینڈر سے متعلق کوئی تجویز شروع نہیں کر سکتی کیونکہ یہ صرف آر بی آئی کے مرکزی بورڈ کی سفارش پر ہی ہو سکتا ہے۔

اس کے جواب میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ آر بی آئی سے مشورہ کیا گیا تھا اور حکومت نے نومبر 2016 میں نوٹیفکیشن سے پہلے چھ ماہ تک اس کے ساتھ مشاورت کیا تھا۔

حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل آر وینکٹرامانی نے اس وقت عدالتی جانچ پڑتال کی مزاحمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کسی معاملے کا فیصلہ نہیں کر سکتی جب ’گھڑی کو پیچھے کر کے‘ اور ’پھینٹے ہوئے انڈے سے دوبارہ نیا انڈا بنانے‘ کرنے کے ذریعے کسی کو ٹھوس فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا۔‘

وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے بی جے پی کو 'یوم نوٹ بندی' منانے کا چیلنج دیا۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی نے معیشت کو متاثر کیا اور یہ فیصلہ غلط تھا کیونکہ اس کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرح نمو 2019-2020 میں چار فیصد تک گر گئی جو 2016-17 میں 8.3 فیصد تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا