دہلی: تیزاب سے جھلس جانے والی خواتین کو بااختیار بنانے والا کیفے

انڈیا کا ’شیروز کیفے‘ نہ صرف زندہ بچ جانے والوں کو وقار کا احساس دیتا ہے بلکہ انہیں بااختیار بنانے کی علامت کے طور پر معاشرے میں واپس آنے کا راستہ بھی فراہم کرتا ہے۔

تیزاب حملے سے بچ جانے والوں کی باقی زندگی بھی عموماً تلخ معاشرتی رویوں کا شکار ہو کے گزرتی ہے۔

انڈیا کا ’شیروز کیفے‘ نہ صرف زندہ بچ جانے والوں کو وقار کا احساس دیتا ہے بلکہ انہیں بااختیار بنانے کی علامت کے طور پر معاشرے میں واپس آنے کا راستہ بھی فراہم کرتا ہے۔

اس کیفے کا آغاز ایک غیر سرکاری تنظیم نے کیا تھا جو تیزاب گردی کے متاثرین کے لیے کام کرتی ہے۔

نوئیڈا اسٹیڈیم میں ہمیں تیزاب حملے کے بعد بچ جانے والی 24 سالہ انشو نے بتایا کہ ’شروع میں، میں باہر جاتے وقت اپنا چہرہ ڈھانپ لیتی تھی، لیکن اس تنظیم نے مجھے احساس دلایا کہ جن لوگوں نے ایسا کیا ہے انہیں اپنا چہرہ چھپانا چاہیے، مجھے نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا ’جن لوگوں نے اپنا فاصلہ برقرار رکھا تھا وہ اب مجھ سے رابطے میں رہنا چاہتے ہیں۔‘

شیروز میں انشو دوسرے ملازمین کو تربیت دیتی ہیں، کمیونٹی ایونٹس کا اہتمام کرتی ہیں اور اوپن مائیکس کی میزبانی کرتی ہیں۔

شیروز کی بورڈ ممبر ریتو کے مطابق انہوں نے اشیش اور الوک کے ساتھ مل کر 2013 میں ’سٹاپ ایسڈ اٹیک‘ مہم شروع کی اور دھیرے دھیرے ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے تیزاب گردی سے بچ جانے والوں کے ساتھ وابستہ ہوتی گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہماری مہم نے اس وقت مقبولیت حاصل کی، جب زندہ بچ جانے والوں کو ہم نے بہت زیادہ ترغیب دی اور وہ عوام میں گئے اور اپنی کہانیاں کھل کر شیئر کیں۔‘

روپا 15 سال کی تھیں جب ان کی سوتیلی ماں نے سوتے میں ان پر تیزاب پھینک دیا۔ انہوں نے اپنی الگ شناخت بنانے کے لیے دوبارہ جدوجہد کی۔ وہ کپڑے ڈیزائن کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہیں اور مستقبل میں ایک بوتیک کھولنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اپنی سگی ماں کے انتقال کے بعد ایک پریشان کن زندگی گزاری۔

ریتو نے مزید بتایا کہ ’جب آپ کو کوئی ایسا مل جائے جو آپ کی بات سنے، تو آپ کے آدھے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ہم جیسے عام لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا سمجھتے ہیں اور انہیں ذہن میں رکھتے ہیں۔ ان خوفناک واقعات کے بارے میں سوچیں جو ان بچ جانے والوں کے ساتھ پیش آئے۔ کچھ زخم باہر سے تو بھر جاتے ہیں لیکن باطن میں اٹک جاتے ہیں۔ اس کا واحد علاج اسے دوسروں کے ساتھ بانٹنا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا