آئین کے 50 سال: کیا یہ خوشی کا موقع ہے؟

اگر آئین پاکستان کوئی انسان ہوتا تو شاید کل پارلیمان میں اپنی سالگرہ کی تقریب کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیتا کہ جب سے میں بنا مجھے تو آج 50ویں بار اپنی پامالی کا سوگ منانا چاہیے تھا۔

وزیر اعظم شہباز شریف پارلیمان میں قومی آئینی کنوینشن سے خطاب کر رہے ہیں (پی آئی ڈی)

پارلیمان میں آئین پاکستان کی 50ویں سالگرہ دھوم دھام سے منائی گئی لیکن اس پر کسی نے بات نہیں کی کہ جب سے یہ آئین پیدا ہوا نہ صرف فوجی آمروں، آمر نما ججوں بلکہ کئی سیاست دانوں نے اسے روندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بار بار یہ ثابت کیا گیا کہ ذاتی اور سیاسی مفادات کے مقابلے میں آئین پاکستان کی سرے سے کوئی حیثیت ہے ہی نہیں۔ جنرل ضیا سے جنرل مشرف تک نے یہ تو ثابت کیا کہ آئین کاغذ کا وہ ٹکڑا ہے جسے نہ صرف بار بار بوٹوں تلے بڑی آسانی سے روندا جا سکتا ہے بلکہ اپنے غیر آئینی اقدامات سے یہ بھی واضح کیا کہ عدلیہ کو بھی اس عمل میں شرمناک حد تک شریک جرم بنانا کوئی مشکل کام ہی نہیں۔

یہ عدلیہ ہی تھی جس نے نظریہ ضرورت کے تحت فوجی اور سیاسی ڈکٹیٹرز کے غیر آئینی اقدامات کو بار بار تحفظ دیا۔ عدلیہ آئین کی پاسدار ہے لیکن جب عدلیہ فنڈز اکٹھے کرنے میں مصروف ہو تو پھر آئین میں نقب لگا کر غیر جمہوری طریقے اختیار کر کے کسی کو چور دروازے سے اقتدار میں لانے کا پوراعمل صرف نظر ہی ہو گا۔

فوجی ڈکٹیٹرز اور ججز کی طرح آئین کی پامالی میں سیاست دان شریک جرم تو کم ہی رہے بلکہ زیادہ تر ان کو سبق سکھانے کے لیے ہی کسی ٹارزن نے آئین کو روندا لیکن کچھ پامالیاں ایسی ہیں جن کا تذکرہ نہ کرنا زیادتی ہو گی۔

ماضی قریب میں عمران خان صاحب وہ سیاست دان بنے جنہوں نے تحریک عدم اعتماد رکوانے کے لیے آئین کو بالائے طاق رکھا اور اب موجودہ حکومت آئین کے تحت 90 روز میں انتخابات سے کترا رہی ہے۔

اگر آئین پاکستان کوئی انسان ہوتا تو شاید آج پارلیمان میں اپنی سالگرہ کی تقریب کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیتا کہ پہلے اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سیاست دان میثاق تحفظ آئین کے تحت یہ عہد کریں کہ چاہے جیسے بھی حالات ہوں، میرے وجود پر اب کوئی کاری ضرب نہیں لائی جائے گی تب ہی میں اپنی 50ویں سالگرہ مناؤں گا ورنہ تو جب سے میں بنا اور جو میرے ساتھ سلوک ہوا مجھے تو آج 50ویں بار اپنی پامالی کا سوگ منانا چاہیے تھا۔

آج عمران خان کی حکومت رخصت ہوئے اور پی ڈی ایم کو اقتدار میں آئے ایک سال مکمل ہو چکا ہے اور آج کی ایک سیاست دان کی طرف سے آئین کی خلاف ورزی کا بھی ایک سال مکمل ہو چکا ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بھی حالات اور خدشات ایسے ہیں کہ بہتری کا رستہ شاید آئین کی ایک اور پامالی میں ڈھونڈا جا رہا ہے۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا گذشتہ ہفتے ہی یہ بیان کہ اگر سپریم کورٹ نے فل کورٹ دے کر پنجاب اور پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ نہ کیا تو ملک میں مارشل لا لگنے کے خدشات ہیں۔

وزیر خارجہ کا یہ بیان حالات کی سنگینی کا احساس دلانے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ حالات واقعی خراب ہیں لیکن اس وقت ہمارا نظام کسی بھی غیر آئینی حل کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لیے وقت تقریباً ختم ہو چکا ہے لیکن اس کا حل صرف اور صرف مذاکرات ہیں نہ کہ کوئی ایسا اقدام کو کہ ماورائے آئین ہو۔

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں آئین کی خلاف ورزیوں کا بہت بڑا کردار ہے۔ ’پراجیکیٹ عمران‘ جیسے شروع کیا گیا وہ اب ایک کھلا راز ہے۔ 2018 میں آر ٹی ایس بٹھا کر جس غیر آئینی  طریقے سے تحریک انصاف کو اقتدار میں لایا گیا اور پھر جس طرح پی ٹی آئی کی حکومت کو غیر آئینی طور پر سپورٹ کیا گیا، ارکانِ اسمبلی کو باتھ روموں میں بند رکھ کر ایک جماعت کو سپورٹ پر مجبور کیا جاتا رہا اگر آئین کی یہ پامالی نہ ہوتی تو شاید آج ملک یہاں نہ کھڑا ہوتا۔

آج جسٹس (ر) ثاقب نثار سے لے کر جنرل باجوہ تک اپنی غلطیوں پر نادم ہیں لیکن ان غلطیوں نے ملک کو جس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اس کی تلافی کون کرے گا؟

آج اگر جسٹس قاضی فائز ہاتھ میں آئین کی کتاب اٹھا کر اسے مقدس اور مقدم قرار دیتے ہیں تو یہ اس عدلیہ کی جانب سے ایک اچھا آغاز ہے جس کے ہاتھ پر ایک منتخب وزیراعظم کے عدالتی قتل سے لے کر آئین پر شب خون مارنے والوں کو آئینی چھت فراہم کرنے کے سنگین جرائم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر دو رائے ضرور موجود ہیں کہ آج جسٹس قاضی فائز عیسی کو آئین کی گولڈن جوبلی پر تقریر کرنی چاہیے تھی یا نہیں لیکن موجودہ حالات میں ان کی تقریر سن کر کم از کم سہمے ہوئے آئین پاکستان نے سکھ کا سانس ضرور لیا جسے کچھ لوگ ایک دفعہ پھر پامال ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

قاضی فائز عیسی کی قومی اسمبلی میں شرکت پر تنقید اس لیے بھی جائز نہیں کہ جہاں ایک چیف جسٹس ایک سیاسی جماعت کے لوگوں کے ساتھ تقاریب منعقد کر کے چندہ اکٹھا کر سکتے ہیں، وہاں ایک جج کا آئین کی سربلندی اور تقدس کا پیغام دینے کے لیے پارلیمان کے اجلاس میں شامل ہونے میں کوئی قباحت ہونی ہی نہیں چاہیے۔

اس وقت آگے بڑھنے کا راستہ یہی ہے کہ حکومت دل بڑا کر کے پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دے تا کہ انتخابات کی تاریخ پر معاملات آگے بڑھ سکیں۔ اس  کے بعد سیاست دان، عدلیہ اور فوج مل کر میثاق پاکستان کے تحت میثاق معیشت، میثاق انسداد دہشت گردی اور میثاق تحفظ آئین پر متفق ہو کر آگے بڑھیں اور ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں۔

ورنہ عمران خان ہو یا حکومت میں شامل جماعتیں کسی کے ہاتھ میں سیاست کرنے لیے کچھ نہیں بچے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ