کچھ دن پہلے یہ سننے میں آیا کہ آئین نے سپریم کورٹ کے چند ججوں کے دروازے پر اپنی دادرسی کے لیے دستک دی۔ اس فریاد کا فوری جواب دیتے ہوئے اعلی عدالت کے صرف تین ججوں نے ایک اہم آئینی اور قانونی مسئلے کی ساتھی ججوں کے آئینی اور قانونی اعتراضات کے باوجود ایک من پسند تشریح کر دی۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
کچھ ججوں کے ذریعے آئین کی اس طرز کی تشریح اب ایک معمول سا بن گیا ہے جس کی وجہ سے سپریم کورٹ اب واضح طور پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔ آئینی معاملات کی تشریح میں اختلاف رائے ایک عام سی بات ہے لیکن یہ کرتے ہوئے آئین کو دوبارہ سے تحریر کرنا کسی طرح بھی عدالت عظمی کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔ اس طرح کی عدالتی فعالیت نہ صرف قانونی برادری میں تشویش کا باعث بن رہی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے اندر بھی اب اس کے خلاف آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔
حالیہ چند سماعتوں میں آئین کی بعض شقوں پر تو ہم خیال ججز بڑا زور دیتے رہے ہیں لیکن آئین صرف کچھ پسندیدہ شقوں پر تو مشتمل نہیں ہے۔ اگر سپریم کورٹ آئینی حکمرانی چاہتی ہے تو اسے مکمل آئین پر عمل درآمد کرانے کی کوشش کرنی چاہیے جیسا کہ یہ اس کی آئینی ذمہ داری ہے نہ کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر کچھ شقوں کے اطلاق پر ہی زور دیا جائے۔
آئین کیا یہ اجازت دیتا ہے کہ کچھ سرکاری اہلکار اپنا آئینی حلف توڑیں اور سیاست میں مداخلت کریں۔ اگر کچھ سرکاری اہلکار سیاسی میدان میں مبینہ طور پر سرعام مداخلت کر رہے ہوتے ہیں تو کیا یہ آئین اور ان کے حلف کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
جب ایک سابق وزیراعظم ان اہلکاروں کی سیاسی معاملات میں مدد اور مداخلت کا خود اعتراف کرتا ہے تو کیا اس وقت عدلیہ کے دروازے پر سسکتا ہوا آئین دستک نہیں دے رہا ہوتا۔ اس وقت آئین کی پامالی پر ازخودنوٹس کا اختیار کیوں خواب خرگوش میں مدہوش ہوتا ہے۔
اور کیوں ان غیر آئینی اقدامات کا راستہ نہیں روکا جاتا یا ان پر سزا نہیں دی جاتی؟
جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ایک سرکاری اہلکار کے ساتھ مل کر مبینہ سیاسی منصوبہ بندی کر رہے ہوتے ہیں تو کیا وہ آئین اور اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کر رہے ہوتے۔ کیا یہ آئین میں تحریر تھا کہ ایک شخص کو 2018 کے انتخابات سے پہلے سزا دینی ضروری ہے اور اس کے لیے سارے نظام کو اغوا کر لیا جائے۔
کیا آئین ججوں کو انتظامی معاملات میں مداخلت کا اختیار دیتا ہے؟ جیسا کہ بدنام زمانہ جی آئی ٹی کی تشکیل میں مداخلت کی گئی اور من پسند افراد کو اس میں شامل کرکے من پسند نتائج حاصل کیے گئے۔ کیا آئین کی کوئی شق اس معاملے میں ہماری رہنمائی کر سکتی ہے۔
کیا آئین کی کوئی شق کامل یا جزوی صادق و امین کی بات کرتی ہے؟ تھوک کے حساب سے اور آواز کی رفتار سے تیز مقدمات میں پارلیمان کے ممبران کو توہین عدالت پر فارغ کرنے والی عدالت سابق وزیر اعظم پر اسی الزام کے مقدمے کی دس ماہ گزرنے کے باوجود بھی سماعت کیوں نہیں کر پا رہی ہے۔
یہ دہرا معیار آئین کی کس شق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے؟
1973 کے آئین کے نفاذ بعد دو بار اسے توڑا گیا۔ کیا کسی سپریم کوٹ نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان آمروں کے رخصت ہونے پر بھی اس غیر آئینی قدم کے مجرموں کے خلاف ازخود نوٹس لیتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کی؟ ایک حکومت نے ایک آئینی مجرم کے خلاف کارروائی شروع کی تو اس حکومت اور اس قانونی عدالت کا کیا حال کیا گیا۔
کیا یہ آئین کی محافظ عدالت اس حکومت اور اس قانونی عدالت کی مدد کو آئی۔ کیا وہ ایک قانونی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے اور آئین کی سربلندی کے لئے آگے بڑھی؟
آئین کے ضامن ادارے کا ان غیرآئینی اقدامات پر خاموش رہنا اور من پسند مسائل پر پھرتی سے حرکت میں آنے پر اس ادارے کی ساکھ سنجیدہ طور پر متاثر ہو رہی ہے۔ اس ادارے کے مشکوک اور آئین سے بالا فیصلے پورے ملک میں تقسیم کا باعث بنتے ہیں۔
حاضر ججوں کا کچھ دن پہلے دیے ہوئے اپنے فیصلے سے بڑی آسانی سے مختلف فیصلے کرنے سے اس ادارے کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے۔
عدلیہ ایک اہم ادارہ ہے اور ہمارے تلخ عدالتی تجربوں کے بعد اسے مکمل طور پر اپنے آپ پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر عوام کا اس پر اعتماد مکمل طور پر اٹھ گیا تو یہ پورے معاشرے اور ریاست کی بنیادوں کو ہلا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس اہم ادارے سے بظاہر لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ لاکھوں مقدمے دہائیوں سے فیصلوں کے منتظر ہیں مگر من پسند مقدمے فوراً سماعت کے لیے لگ جاتے ہیں اور من پسند افراد کو فوراً انصاف بھی مل جاتا ہے۔ سیاس ناپسندیدہ افراد کو فوراً سزا دینے کے لیے مقدمات کی سماعت اور فیصلہ کے لیے وقت تک بھی متعین کر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے مانیٹرنگ جج تک نگرانی شروع کر دیتے ہیں۔
اس مایوسی کی فضا کو دور کرنے اور ریاست پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اس اہم ریاستی ادارے میں اصلاحات کو متعارف کرائے جس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہو اور عدلیہ کے اندر احتساب کے نظام کو مضبوط کیا جائے۔
اس کی آئینی اور قانونی مسائل کو حل کرنے میں اور مقدمات کے فیصلے کرنے میں اس کی استعداد بڑھائی جائے۔
من پسند مقدمات کی سماعت کو ترجیح دینے کی روایت کو ختم کرتے ہوئے ججز کے بینچ کی تشکیل کے لیے جدید تکنیکی نظام سے مدد لینے کی ضرورت ہے۔ مقدمات کی سماعت اور ججز کی ان کے متعلقہ قانون میں مہارت کی بنیادوں پر انہیں سماعت سونپی جائے اور اس کے بارے میں اہلکاروں کے صوابدیدی اختیارات کو ختم کر دیا جائے۔
ان اصلاحات کے نفاذ میں یقینا عدلیہ کی طرف سے مزاحمت متوقعے ہے جیسا کہ اعلی عدلیہ نے اٹھارویں ترمیم کے وقت پارلیمان کے بازو مروڑ کر ججوں کی تعیناتی کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔
لیکن جیسا کہ اس وقت تمام سیاسی قوتوں نے کسی نہ کسی طرح سے انصاف دینے والے اداروں سے نقصان اٹھایا ہوا ہے اور اس وقت پی ٹی آئی نے بھی حکومت سے سیاسی معاملات پر بات کرنے پر رضامندی کا اظہار کر دیا ہے تو امید کی جاتی ہے کہ ان مذاکرات میں عدالتی اصلاحات بھی اہم جگہ پا سکیں گی۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا صروری نہیں۔