کیا سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس کا نام ہے؟

آئینی بحرانوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان یہ لازمی قرار دے کہ کسی بھی آئینی معاملے کو سارے جج سنیں گے اور ان کے فیصلے سادہ اکثریت کی بجائے ترجیحی طور پر دو تہائی اکثریت سے ہونے چاہییں۔

(انڈپینڈنٹ اردو)

جمہوری ممالک میں سپریم کورٹ کے سربراہ کا کردار انتظامی نوعیت کا ہوتا ہے جس میں ادارے کو چلانے کے انتظامات کی نگرانی کرنا اور سپریم کورٹ کے زیر سماعت مقدمات کی صدارت کرنا ہوتا ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

چیف جسٹس کسی طرح سے بھی مقدمات کی سماعت کی ترتیب کے فیصلے یا کون سا جج کس مقدمے کی سماعت کرنے کے بارے میں مطلق العنان اختیارات کا مالک نہیں ہوتا۔ وہ اپنے برادر ججز میں صرف پہلے نمبر پر ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اسے برادر ججز پر کسی قسم کی برتری یا فوقیت نہیں ہوتی۔

امریکی سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت سارے ججز کرتے ہیں اور وہاں یا کہیں بھی پرانی جمہوری ریاستوں میں چیف جسٹس کی صوابدید پر ججز کے بینچ بنانے کا طریقہ کار نہیں ہے۔ یا یہ دیکھنے میں نہیں آتا کہ اہم آئینی یا سیاسی معاملات ایک تسلسل سے صرف کچھ ججز ہی دیکھیں اور ان مقدمات سے بظاہر جان بوجھ کر سینیئر ترین ججز کو ایک لمبے عرصے کے لیے علیحدہ رکھا جائے۔

پاکستان کے آئین میں بھی اسی طرح کہیں بھی سپریم کورٹ میں ججز کے بینچ بنانے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی اس میں چیف جسٹس کے مطلق العنان اختیارات کا ذکر ہے۔ ہاں ہائی کورٹس میں ضرور مختلف بینچز کا ذکر ہے۔ سپریم کورٹ میں بینچ کا قیام ایسی روایت قرار دی جا سکتی ہے جس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔

آئین کا آرٹیکل 176 سپریم کورٹ کی ساخت کے بارے میں میں بہت واضح طور پر کہتا ہے کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور دیگر ججز پر مشتمل ہو گی جس سے صاف ظاہر ہے کہ سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور دیگر ججز ہیں۔ اس لیے سپریم کورٹ کے کسی بھی حکم کو چیف جسٹس اور دیگر ججز کا حکم ہونا چاہیے نہ کہ کچھ ججز کے بینچ کے فیصلے سپریم کورٹ کے فیصلے سمجھے جائیں۔

 یہ ایسے ہی ہے جب سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ وزیراعظم کے فیصلوں کو کابینہ کی منظوری درکار ہے۔ اسی طرح آئین کی منشا کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلوں کی سارے برادر ججز کی منظوری بھی درکار ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک آئینی ادارہ ایک جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم سے تو اس کے فیصلوں کی اس کی اپنی کابینہ سے منظوری مانگے مگر خود اہم آئینی اور قانونی فیصلے صرف چند من پسند ہم خیال برادر ججز ساتھ مل کر کر لے۔

ہمارے ماضی میں اور موجودہ آئینی بحران کی وجہ ہماری سپریم کورٹ کی فیصلہ سازی میں غیر متوازن ساخت اور ماضی میں کچھ چیف جسٹسز کا اختیارات کا آئین سے بالا استعمال رہا ہے۔ جسٹس منیر سے لے کر ماضیِ قریب تک ایک تاریک تاریخ ہے جس میں ان ججز کا کچھ ہم خیال ججز کے ساتھ مل کر غیرآئینی اقدامات سے نہ صرف ملک کو آئینی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ عدالت عظمی کی بےتوقیری بھی ہوئی۔

اس بے توقیری میں حال ہی میں شدت سے دیکھنے میں آئی ہے جب چیف جسٹس اپنے من پسند ججز سپریم کورٹ میں بھرنے پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں اور اس میں ناکامی پر جوڈیشل کونسل کے اجلاس کو یکایک بغیر کسی وجہ کے برخاست کر دیتے ہیں۔

اسی طرح مبینہ طور پر اٹارنی جنرل کی تعیناتی میں روڑے اٹکائے گئے جس کی وجہ سے ایک مجبور، لاچار اور کمزور وفاقی حکومت کو اپنے اٹارنی جنرل کے امیدوار کو تبدیل کرنا پڑا۔

پھر قانونی برادری کے احتجاج کے باوجود مبینہ طور پر ’من پسند فیصلے حاصل کرنے کے لیے من پسند ججز کے بینچ بنائے جانے پر اصرار‘ ہے۔ سپریم کورٹ کی پچھلی تین قیادتوں کے احکامات سے ظاہر ہوتا ہے جیسے انہوں نے طے کیا ہوا ہے کہ سینیئر ترین جج جو اس سال ستمبر میں چیف جسٹس بنیں گے انہیں اہم آئینی اور قانونی مقدمات سے علیحدہ رکھا جائے۔

افسروں کی تعیناتی پر ازخود نوٹس لینے والی سپریم کورٹ اپنے ہی جج کی مبینہ آڈیو پر خاموش رہتی ہے اور احتجاج کے باوجود نہ تو انہیں اہم بینچ سے علیحدہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس الزام کی تحقیق کرنے کے لیے جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 یہ ایک مسلمہ روایت ہے کہ اگر سائل کو جج پر اعتماد نہ ہو تو وہ جج اس مقدمے سے علیحدہ ہو جاتا ہے، مگر حال ہی میں اہم آئینی مقدمات میں اعتراضات کے باوجود کچھ ججز ان مقدمات سے علیحدہ ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور نہ ہی چیف جسٹس نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے انہیں بینچ سے علیحدہ کیا۔

ان واقعات کی وجہ سے جتنی بےتوقیری اعلیٰ عدلیہ کی حال ہی میں ہوئی ہے ایسی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

اس اعلیٰ ادارے کی توقیر کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان حرکت میں آئے اور ایسی قانون سازی کی جائے جس سے یہ یقینی بنایا جا سکے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کے استعمال میں توازن لایا جائے۔

چیف جسٹس کو ایک سلطنت کے بادشاہ کی بجائے ایک انتظامی سربراہ کے طور پر اپنے اختیارات کو استعمال کرنا چاہیے اور پارلیمان کو اس سلسلے میں بڑے واضح طور پر قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ تقریباً پوری پارلیمان نے آئین منظور کیا ہو اور ترامیم پارلیمان میں تو دو تہائی اکثریت سے منظور ہوئی ہوں مگر اسی آئین کی تشریح پانچ ججز کے بیچ میں صرف تین جج کریں اور اپنے ساتھی ججز کے مطابق آئین کو دوبارہ لکھ رہے ہوں؟

آئینی بحرانوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ پارلیمان آئینی ترمیم یا قانون سازی کے ذریعے یہ لازمی قرار دے کہ کسی بھی آئینی معاملے کو سارے ججز سنیں گے اور ان کے فیصلے سادہ اکثریت کی بجائے ترجیحی طور پر دو تہائی اکثریت سے ہونے چاہییں۔

ان ترامیم سے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ میں اختیارات کے ارتکاز کا خاتمہ ہو گا بلکہ آئینی معاملات پر ایسے فیصلے آئیں گے جن کو اداروں اور عوام میں بھی پذیرائی ملے گی۔

از خود نوٹس اختیار کو بھی ساخت دینے کی ضرورت ہے اور ایک یا دو ججز کی بجائے یہ معاملہ بھی پوری عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہیے اور پوری عدالت کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ کن معاملات پر ازخود نوٹس لیا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی سے حکومت پر بےجا قانونی حملوں کو روکا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ کسی طرح بھی ٹرائل کورٹ کی شکل اختیار نہ کرے تاکہ پاناما جیسے مقدمات کی سماعت کر کے انسانی حقوق کو متاثر کرتے ہوئے اپیل کا راستہ بند کر دیا جائے۔

بنیادی عدالتوں کو اپنا کام آزادی اور بغیر کسی دباؤ سے کرنے کے لیے مانیٹرنگ جج کی غیر آئینی اور غیر قانونی ضرورت کا خاتمہ بھی اشد ضروری ہے۔

ان چند آئینی اصلاحات سے امید کی جاتی ہے کہ ملک میں جاری آئینی بحران اور آنے والے بحرانوں کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر