سپریم کورٹ کے دو ججوں کے اختلافی نوٹ کی بنیاد کیا تھی؟

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے اختلافی نوٹس میں تجویز کیا ہے کہ اس نوعیت کے معاملات کا بہترین حل اسی میں ہے کہ یہ انہیں پارلیمان میں حل کیا جائے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندو خیل نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا ہے (تصاویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ)

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس میں عالی عدلیہ کے ججوں میں شدید اختلاف سامنے آیا۔ پہلے چار جج بینچ سے الگ ہوئے جبکہ اب فیصلے میں دو ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا اور اختلافی نوٹ لکھا۔ اختلافی نوٹ کس بنیاد پر تھا؟

جنوری کے وسط میں پہلے پنجاب اور پھر صوبہ خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کی گئیں جس کے بعد سے یہ معاملہ اٹکا ہوا تھا کہ کیا ان دونوں اسمبلیوں میں انتخابات 90 روز میں ہی ہوں گے یا نہیں۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے دو دن کی سماعت کے بعد فیصلہ سنا دیا لیکن وہ بھی متفقہ نہیں بلکہ اکثریتی فیصلہ تھا، تین ججوں نے انتخابات 90 روز میں کرانے کا کہا جب کہ دو جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھے جو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے پڑھ کر سنائے۔

اختلافی نوٹ میں ان ججوں کا کہنا تھا کہ مقدمے کے حقائق اور حالات کے پیش نظر ازخود نوٹس کی کارروائی پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت کی گئی تھی جو غیر ضروری عجلت میں شروع کی گئی۔
ان دو ججوں کا موقف تھا کہ ازخود نوٹس کیس نمبر 1 اور 2023 کی دو درخواستیں منظور الٰہی 1 اور بنجر بھٹو 2 میں طے شدہ اصولوں کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اس عدالت کے غیر معمولی اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے لیے موزوں کیس نہیں ہیں اور اس طرح ایک ہی آئینی اور قانونی معاملات کے طور پر قابل سماعت نہیں ہیں۔

اختلافی نوٹس کے مطابق ازخود نوٹس جلد بازی میں لیا گیا کیوں کہ اس معاملے میں ایسا ہی ریلیف صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کی جانب سے پنجاب اور پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں میں مانگا گیا۔ 

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات پر لاہور ہائی کورٹ کا ایک رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے اور اب اس بارے میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جا چکی ہے۔

دونوں ججوں نے پہلے (نو رکنی) بینچ میں شامل ساتھی ججوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے قبل جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے طرف سے لکھے گئے اختلافی نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’اس لیے انتخابات پر ازخود نوٹس کی درخواستیں مسترد کرتے ہیں۔‘ 

اختلافی نوٹس میں یہ بھی لکھا گیا کہ صوبائی خودمختاری کو مجروح کرنے سے گریز کیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس معاملے کی اہمیت اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے وہ توقع کرتے ہیں کہ متعلقہ ہائی کورٹس آج سے تین دن کے اندر اس بارے میں زیر التوا درخواستوں کو نمٹائیں۔

’ایک بار جب کوئی آئینی مسئلہ صوبائی ہائی کورٹ میں زیر التواء ہو تو ہمارے آئین کے وفاقی ڈھانچے یعنی اعلیٰ صوبائی آئینی عدالت کی خودمختاری اور آزادی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس میں فوری مداخلت نہیں کی جانی چاہیے بلکہ صوبائی خودمختاری کو مضبوط بنانے اور صوبائی آئینی عدالتوں کی خودمختاری کو کمزور کرنے سے بچنے کے لیے اس کی حمایت کی جانی چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں ججوں نے اپنے اختلافی نوٹس میں لکھا کہ اس نوعیت کے معاملات کا بہترین حل اسی میں یہ انھیں پارلیمان میں حل کیا جائے۔

ہائی کورٹس میں زیر التوا کارروائی میں کوئی غیر معمولی تاخیر نہیں ہوئی ہے، بلکہ فوری کارروائی نے ہائی کورٹ س کے سامنے معاملے کو غیر ضروری طور پر مؤخر کردیا ہے۔ تاہم اس معاملے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم توقع کرتے ہیں کہ متعلقہ ہائی کورٹس آج سے تین دن کے اندر ان کے سامنے زیر التوا معاملات پر فیصلہ کریں گے۔

جب اس معاملے پر کوئی پیش رفت نا ہوئی تو پہلے صدر عارف علوی نے 20 فروری کو ایک مشاورتی اجلاس کے بعد اعلان کر دیا کہ دونوں صوبوں میں 9 اپریل کو انتخابات کرائے جائیں کیوں کہ آئین اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں نئے انتخابات کرانے کا کہتا ہے۔

لیکن حکومت کی طرف سے صدر کے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ آئین صدر کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں دیتا، اس کے بعد عدالت عظمی کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 22 فروری کو اس معاملے کا از خود نوٹس لے 9 رکنی بینچ تشکیل دیا جو دو ججوں کی جانب سے اختلافاتی نوٹس اور دو ججوں کی طرف سے بینچ سے رضا کارانہ طور پر علیحدگی کے بعد توڑ دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان