اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں اصلاحات کی ضرورت

جسٹس صدیقی کے مقدمے کا فیصلہ ان کی ریٹائرمنٹ کے طویل عرصے کے بعد تک نہ کرنا اور بعض ججوں کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کے فیصلے کا من پسند استعمال کرنا ایک غیر فعال ناکارہ عدالتی نظام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

پاکستان کی سیاسی، قانونی اور کچھ حد تک معاشی تاریخ میں اعلیٰ عدلیہ کا کردار کافی متنازع اور غیر تسلی بخش رہا ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ عدلیہ اپنے معاملات میں بڑی حد تک خود مختار ہے اور کسی بھی عوامی ادارے کو جواب دہ نہیں ہے، اس کی مقدموں پر فیصلوں کی تعداد کافی مایوس کن ہے۔ کئی سائلین کو انصاف ان کا جہان فانی سے کوچ کر جانے کے بعد ملا۔

اسی طرح اس وقت بظاہر ملک کی تمام سیاسی قوتوں نے عدلیہ کے ہاتھوں مختلف اوقات میں کاری زخم کھائے ہیں۔ انتہائی معتبر اور قابل احترام قانون دانوں کی نظر میں عدلیہ نے بہت سارے فیصلے بظاہر آئین کے خلاف کیے جن میں ایک امر کو آئین میں ترامیم کرنے کی اجازت اور ایک وزیر اعظم کا عدالتی قتل بھی شامل ہیں۔

بعض فیصلے اپنے کچھ دنوں پہلے کے فیصلے سے مختلف کیے گئے جن پر عوامی حلقوں اور قانون دانوں نے سخت تنقید کی مگر ان انتہائی سینیئر ججز نے ان فیصلوں کی عجیب و غریب توجیہات پیش کیں۔

کئی ججوں نے تو آئین کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کی اور یہ مشاہدہ عام قانون دانوں کے ساتھ ساتھ خود اعلیٰ عدلیہ کے کچھ ججوں نے اپنے فیصلے میں لکھا۔

ایک چیف جسٹس اپنے ادارے کا غلبہ قائم رکھنے کے لیے پارلیمنٹ تک کو دباؤ میں ڈالا۔ عدالت نے نہ صرف متفقہ آئینی ترمیم جس میں کئی مہینوں کی سوچ و بچار شامل تھی، اسے ماننے سے انکار کرتے ہوئے پارلیمان کو ان ترامیم میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس پر پارلیمان کچھ کرنے میں ناکام رہی کیونکہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ بھی عدلیہ کے ساتھ مل کر ایک قانونی اور آئینی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف تھی۔

پچھلے چار سالوں کے تجربے سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں میں نئے ججز کی تعیناتی یا ان کی برطرفی کے بارے میں واضح اختلافات ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اور جسٹس شوکت صدیقی کی متنازع برطرفی اعلیٰ عدلیہ میں ہم خیال ججز کی اپنی برتری قائم رکھنے کی کھلی کوشش دکھائی دیتی ہے۔

جسٹس صدیقی کے مقدمے کا فیصلہ ان کی ریٹائرمنٹ کے طویل عرصے کے بعد تک نہ کرنا اور بعض ججوں کے خلاف ریفرنسز کی سماعت کے فیصلے کا من پسند استعمال کرنا ایک غیر فعال ناکارہ عدالتی نظام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس گلزار کا عدالت کی سوموٹو طاقت کا اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرنا، آئین سے بالا فیصلے کرنا اور اس پر باقی ججز کا خاموش رہنا اس ادارے کی آئین کی حفاظت میں ناکامی اور غیر موثر پن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

حال ہی میں ججوں میں شدید اختلافات اس وقت نظر آئے جب چیف جسٹس نے بظاہر اپنی پسند کے ججوں کو سپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی کوشش کی۔

کچھ ساتھی ججوں کے اصرار کے باوجود چیف جسٹس تعیناتیوں کے معاملات میں واضع اصول تعین کرنے سے گریزاں ہیں اور بظاہر من پسند ججوں کے تقرر کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اہلیت کو بنیاد بناتے ہوئے وہ مسلسل ساری ہائی کورٹس کے سینیئر ججوں کو نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ ان کی طرف سے سینیئر ججز کو نظر انداز کرنے کی کوئی واضح وجوہ نہیں پیش کی جاتیں مگر ذرائع کے استعمال اور جوڈیشنل کمیشن کے اجلاس کی آڈیو ٹیپ سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شاید یہ سینیئر ججز سپریم کورٹ میں تعیناتی کے اہل نہیں ہیں۔

 یہ عجیب منطق ہے کہ یہ سینیئر جج سپریم کورٹ کے لیے تو اہل نہیں مگر ہائی کورٹس میں انہیں فیصلے کرنے کی کھلی آزادی ہے۔ ان ججوں پر عدم اعتماد ہائی کورٹ میں ججوں کی تعیناتی، ان کے انتخاب کے طریقہ کار اور ان کی کارکردگی جانچنے کے عمل کو بھی مشکوک کر دیتا ہے۔

سینیئر قانون دانوں کو کچھ  تعیناتیوں میں  اقربا پروری بھی  صاف دکھائی دیتی ہے جب ججز اپنی ہی پرانی قانونی فرم کے ساتھی وکیلوں کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں لانے کی کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

 ان سب واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں موجودہ تعیناتیوں کا نظام مسائل سے دوچار ہے اور اس سے ججوں کی نیک نامی متاثر ہو رہی ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ ہماری اعلی عدلیہ کے ججز کو اعلی تعیناتیوں سے دور کیا جائے اور ان تعیناتیوں اور ججوں کے مواخذے کے لیے ایک نیا فعال اور طاقتور ادارہ یا طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہئے جس میں سپریم کورٹ کے ججوں کا کوئی کردار نہ ہو اور پارلیمان اور سول سوسائٹی ان تعیناتیوں کی نگران ہو۔

ایسا نظام مختلف شکلوں  میں بہت سارے ممالک میں کامیابی سے چلایا جا رہا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنے نظام میں تبدیلی لا کر ایسے ججز اعلیٰ عدلیہ میں لائیں جو کہ صرف قانون اور آئین کی سربلندی کے لیے کام کریں نہ کہ اپنے ذاتی مفادات اور پسند ناپسند کے لیے آئین کی شکل بگاڑ دیں یا اپنے  سابق ساتھی وکیلوں سے عدالتوں کو بھر سکیں۔

اس سلسلے میں ایک ایسے کمیشن کا قیام لایا جاسکتا ہے جس میں پارلیمان کے ممبرز، معروف اور غیر متنازع قانون دان اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات شامل ہوں اور ان کے سامنے حکومت کی طرف سے پیش کردہ امیدواروں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور کمیشن منتخب ناموں کو پارلیمان کی منظوری کے لیے پیش کرے۔

پارلیمان، امیدواروں کی امریکی سینیٹ کے طرز پر جرح کرے جس کے ذریعے امیدوار کی اہلیت اور اس کے اہم آئینی معاملات کے بارے میں خیالات کا جائزہ لیا جا سکے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس جرح میں عام عوام اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بھی شرکت اور سوالات کرنے کا حق حاصل ہو۔ اس شفاف طریقہ کار سے امید کی جاتی ہے کہ قابل، آزاد اور غیر متنازع ججز اعلی عدلیہ کی شان میں اضافہ کر سکیں گے۔ 

اعلیٰ عدلیہ میں دھڑے بندی اور تقسیم کو ختم کرنے کے لیے چیف جسٹس کی سوموٹو اختیار کو استعمال کرنے کے لیے اصول وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اختیار کا جسٹس چوہدری اور جسٹس نثار کے دور میں بےجا اور بے دریغ استعمال سے آئینی حکومتوں کو غیرمستحکم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

اس بری روایت کو ختم کرتے ہوئے  سوموٹو اختیار کے استعمال کا فیصلہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بجائے ججوں کی اکثریت کو کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ججوں کے مواخذے کے لیے بھی مجوزہ کمیشن کو مکمل اختیار دینے سے اعلی عدلیہ میں ہم خیال ججوں کے تصور اور گروہ بندی کا بھی خاتمہ ہو سکے گا۔

اس طریقہ کار کے ساتھ ساتھ جوڈیشل سروس کو بھی مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سروس میں شامل ہونے کے لیے سخت اور شفاف بھرتی کا نظام بنانے کی ضرورت ہے اور اعلیٰ عدلیہ میں تنوع اور اعتدال لانے کے لیے اسی سروس کے ممبران کو بالآخر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں متناسب بنیادوں پر ترقی دینے کی بھی ضرورت ہے۔

امید ہے کہ ان اصلاحات سے ہمیں ایک صاف شفاف عدلیہ میسر ہوگی جو فیصلے اپنی سابقہ سیاسی وابستگی یا اسٹیبلشمنٹ کی زبردستی کے بغیر آئینی اور قانونی بنیادوں پر کر سکے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر