پولیس اور عدلیہ کو دھمکیاں: عمران خان کی عبوری ضمانت منظور

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین کی عبوری ضمانت ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض منظور کرتے ہوئے یکم ستمبر تک پولیس کو گرفتاری سے روک دیا۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پولیس اور عدلیہ کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے کے مقدمے میں جمعرات کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی عبوری ضمانت ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرتے ہوئے یکم ستمبر تک پولیس کو گرفتاری سے روک دیا۔

عمران خان نے پولیس اور عدلیہ کو مبینہ طور پر دھمکیاں دینے کے مقدمے میں آج اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی سے قبل ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔

پی ٹی آئی کے وکلا بابر اعوان اور علی بخاری کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے انتقامی کارروائی کے تحت انسداد دہشت گردی کا مقدمہ بنایا، لہذا عدالت ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرے۔ 

اس درخواست پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے سماعت کی، جہاں عمران خان کے وکیل اور پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے اپنی درخواست کے حق میں دلائل دیے۔

سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ کیا مدعی مقدمہ علی جاوید کو دھمکی دی گئی تھی؟ جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ ’عمران خان کے خلاف مقدمہ مجسٹریٹ علی جاوید نے درج کروایا اور ایف آئی آر میں ان کا پتہ ڈپٹی کمشنر آفس کا لکھا ہوا ہے۔‘

بابر اعوان نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ’پراسیکیوشن کے مطابق تین لوگوں کو دھمکیاں دی گئیں۔ آئی جی پولیس، ایڈیشنل آئی جی اور مجسٹریٹ زیبا چوہدری، لیکن ان تینوں میں سے کوئی بھی مدعی نہیں بنا اور پولیس نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا۔‘

’شرم کرو کا لفظ کس طرح دھمکی ہے؟‘

دوران سماعت بابر اعوان نے عمران خان کا بیان پڑھ کر سنایا اور کہا کہ ’شرم کرو کا لفظ کس طرح دھمکی ہے؟ آنکھیں نیچی رکھو، شرم کرو، یہ تو اکثر استعمال ہوتا ہے۔‘

بابر اعوان کے مطابق: ’عمران خان نے کہا کہ آئی جی اور ڈی آئی جی آپ پر ہم نے کیس کرنا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ زیبا صاحبہ تیار ہو جائیں ہم آپ پر ایکشن لیں گے، ہم نے اس پر ایکشن لیا اور ان کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ عمران خان نے تین لوگوں کو کہا کہ شرم کرو، تیسرا تو کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ‘

اس پر جج راجہ جواد عباس نے استفسار کیا کہ ’کیا ریاست کی جانب سے یہاں کوئی موجود ہے؟ سپیشل پراسیکیوٹر کو تو ڈی نوٹیفائی کیا جا چکا ہے۔‘ جس پر بابر اعوان نے کہا کہ ’اس عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ پراسیکیوٹر مقرر کر سکتی ہے۔‘

ضمانت کی تاریخ کے حوالے سے بابر اعوان نے معزز جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’26 اگست کو الیکشن ہے اور عمران خان نو حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جو ان کا قانونی حق ہے، ہم لمبی تاریخ نہیں مانگ رہے لیکن الیکشن کے بعد کی کوئی تاریخ دی جائے۔‘

سماعت کے بعد انسداد دہشت گردی عدالت نے ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو یکم ستمبر تک انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا۔

عمران خان کی میڈیا سے گفتگو

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں کوئی قانون ہے ہی نہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ پر کیس کرکے اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جو بھی یہ فیصلے کر رہے ہیں اور کروا رہے ہیں ان کو اپنے ملک کا سوچنا چاہیے۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’(یہ لوگ) تحریک انصاف کی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ وہ پھیلتی جا رہی ہے، ضمنی الیکشن جیتے جا رہی ہے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی اتنے بڑے جلسے نہیں ہوئے، اس خوف سے ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کے لیے، اپنی ذات کو بچانے کے لیے یہ ملک کا مذاق اڑا رہے ہیں۔‘

پی ٹی آئی چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ ’ساری دنیا میں اس وقت پاکستان کا مذاق اڑ رہا ہے۔ ایک طرف شہباز گل پر تشدد ہو رہا ہے اور عدالت میں ثابت بھی ہو جاتا ہے، انہیں واپس پولیس کے پاس بھیج دیا جاتا ہے، لیکن میں یہ کہوں کہ میں اس پر قانونی ایکشن لوں گا۔‘

عمران خان کے خلاف مقدمہ کب اور کیوں درج ہوا؟

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف 20 اگست کو اسلام آباد میں ایک ریلی کے دوران مبینہ طور پر پولیس اور عدلیہ کے خلاف تقریر کرنے پر انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات کے تحت مارگلہ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ ریلی عمران خان کے بغاوت کے مقدمے میں گرفتار چیف آف سٹاف شہباز گل کی گرفتاری اور مبینہ تشدد کے خلاف نکالی گئی تھی، جہاں اپنی تقریر میں پی ٹی آئی چیئرمین نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ افسران اور جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری کے خلاف بیانات دیے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران خان کے خلاف مقدمے کے اندراج کے بعد ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگی تھیں کہ شاید سابق وزیراعظم کو گرفتار کیا جائے گا، جس کے باعث پی ٹی آئی کے کارکنان اور حامیوں کی تعداد بنی گالہ میں واقع عمران خان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئی تھی۔

اس مقدمے میں عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے 25 اگست تک راہداری ضمانت لے رکھی ہے۔

گذشتہ روز پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر قانون بابر اعوان نے ٹوئٹر پر بتایا تھا کہ عمران خان جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بذات خود پیش ہوں گے۔

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اس بات کی کوشش کی جائے گی کہ عمران خان کی ضمانت مسترد ہوجائے۔

اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے گا عمران خان کو عدالت سے ہی گرفتار کیا جائے۔

دفعہ 144 کے مقدمے میں عمران خان کی ضمانت منظور

دوسری جانب ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے مقدمے میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور اسد عمر کی ضمانت منظور کرکے سات ستمبر کو پولیس کو ریکارڈ سمیت طلب کر لیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان