عمران خان کا بیان ’توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے‘: اسلام آباد ہائی کورٹ

عدالت نے خاتون ایڈیشنل سیشن جج کے متعلق پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم کے حالیہ بیان کے معاملےکی سماعت کے بعد انہیں 31 اگست کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

20 اگست 2022 کو عمران خان اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے (فوٹو اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو خاتون سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف ’دھمکی آمیز‘ الفاظ استعمال کرنے پر شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 31 اگست کو طلب کر لیا ہے۔

عدالت نے سیکشن 17 کے تحت عمران احمد خان نیازی کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا۔ اس کیس کو سننے کے لیے تین سے زائد ججوں کا بینچ بنانے کا معاملہ بھی چیف جسٹس کو بھجوا دیا گیا ہے۔ 

منگل کی شب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو ’دھمکانے‘ پر توہین عدالت کیس کا تین صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’عمران خان کا جج کو دھمکی دینے کے بیان کا مقصد عوام کی نظر میں عدلیہ کے وقار اور ساکھ کو مجروح کرنا ہے۔‘

عدالت نے  ایس ایچ او بنی گالہ کو عمران خان کو جاری شوکاز نوٹس کی تعمیل کرانے کا حکم دیا ہے۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ ’بادی النظر میں عمران خان کا جج سے متعلق توہین آمیز بیان، انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد ختم کرنے کی کوشش ہے جو براہ راست توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔‘

تحریری حکم نامے کے مطابق ہائی کورٹ نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور چیئرمین پیمرا کو بھی نوٹس جاری کر دیے ہیں۔ ہائی کورٹ نے پیمرا سے عمران خان کے ایف نائن جلسے سے خطاب کا ٹرانسکرپٹ بھی طلب کیا ہے۔

منگل کی صبح توہین عدالت کیس کی سماعت میں جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’ہماری بہترین خاتون جج کو دھمکی دی گئی ہے۔ اگر یہی ماحول بنانا ہے تو اس ملک میں کچھ کام نہیں ہو سکتا۔‘

 انہوں نے کہا کہ ’جو جج فیصلے کریں گے تو کیا ان کے خلاف تقریریں شروع کر دیں گے؟‘

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’ملک کے وزیر اعظم رہنے والے لیڈر سے اس طرح کے بیان کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ایک عام آدمی کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں۔‘

سماعت کے آغاز میں ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اس کیس میں متفرق درخواست جمع کرا دی ہے۔ عمران خان کی ماضی میں عدلیہ مخالف تقاریر اور بیانات کا ریکارڈ بھی جمع کرانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ویڈیو کلپس ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں لہٰذا عمران خان کے الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر دیے بیانات کی ویڈیوز بھی ریکارڈ پر لانے کی اجازت دی جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل کی متفرق درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’عمران خان کے عدلیہ اور ریاستی اداروں سے متعلق بیانات کو کمرہ عدالت میں چلانے کی اجازت دی جائے۔ یو ایس بی یا دیگر ڈیجیٹل ذرائع کے ذریعے یہ مواد کمرہ عدالت میں دکھانے کی اجازت دی جائے۔‘

جسٹس کیانی نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو قابل اعتراض ریمارکس پڑھنے کی ہدایت کی۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے عمران خان کے قابل اعتراض ریمارکس پڑھ کر سنائے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ’یہ قابل اعتراض ریمارکس کب دیے گئے؟ یہ ریمارکس کس کیس میں دیے گئے؟‘

 ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ ’یہ شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق کیس کے بارے میں مجسٹریٹ کے فیصلے پر دیے گئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر سیاسی جماعت کا سربراہ ایسے ریمارکس دے سکتا ہے؟ اگر سربراہ ایسے قابل اعتراض ریمارکس دیں گے تو نچلی سطح پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔‘

 جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا کہ ’ایک خاتون کو ایسے مخاطب کیا گیا ہے۔ وہ ایڈیشنل سیشن جج ہیں۔ وہ ہزاروں کیسز سن رہی ہیں جن میں قتل اور ڈکیتی کے کیسز بھی شامل ہیں۔ یہ صرف اسلام آباد کی خاتون جج کی حد تک نہیں بلکہ تمام پاکستان میں ججز کام کر رہے ہیں۔‘

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’یہ غلط روایت بن گئی ہے کہ جس وقت ہم عدالت میں کارروائی کر رہے ہیں، اس وقت بھی عدالت کو برا بھلا کہا جا رہا ہو گا۔‘

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ’سوشل میڈیا کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔‘

اس کے جواب میں جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ’آپ کی حکومت ہے، آپ اس کو کنٹرول میں کریں۔ اس طرح کے معاملات کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جانا چاہیے تاکہ اس طرح کے بیانات دینے والے کو اثرات کا اندازہ ہو۔ عدالت کی عزت پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔‘

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مشاورت کی کہ پہلے نوٹس دے کر عمران خان کو سنا جائے یا ڈائریکٹ شو کاز نوٹس دیں؟

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ’بادی النظر میں یہ سیدھا شوکاز نوٹس کا کیس بنتا ہے۔‘

 عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مزید کہا کہ ’کیا جس خاتون جج کو دھمکی دی گئی اس کو آپ اضافی سکیورٹی دینے کو تیار ہیں۔‘

20 اگست کی شب سابق وزیراعظم عمران خان نے ایف نائن پارک میں تقریر کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری، آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کو نام لے کر ’دھمکایا‘ تھا جس کے بعد حکومت اور پولیس کی جانب سے سخت مذمت کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف مجسٹریٹ کی مدعیت میں دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا، جس میں عمران خان تین روزہ راہداری ضمانت پر ہیں۔

جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملے پر نوٹس لے کر عمران خان کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان