’کیا سپریم کورٹ احتساب سے مبرا ہے؟‘ جسٹس فائز عیسیٰ

سپریم کورٹ کے سپیشل بینچ کی سربراہی کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیمرا کی جانب سے ٹی وی چینلز پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے طرز عمل سے متعلق خبریں نشر کرنے پر پابندی پر تنقید کی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا: ’تاثر یہ جاتا ہے کہ شاید عدالت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔‘ (سپریم کورٹ آف پاکستان ویب سائٹ)

سپریم کورٹ کے جسٹس فائز عیسی نے پیمرا کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے طرز عمل سے متعلق خبریں نشر پر پابندی سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا: ’تاثر یہ جاتا ہے کہ شاید عدالت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔‘

بدھ کو میڈیکل کالجز میں حفاظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے تین رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا: ’پیمرا نے ججز سے متعلق کوئی لیٹر ایشو کیا ہے۔ پاکستان میں سب آزاد ہیں جس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے۔ کوئی میڈیا کی آزادی کیسے دبا سکتا ہے؟

جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمان کا احتساب نہیں ہوتا؟ کیا ججز قابل احتساب نہیں؟ پارلیمنٹیرینز کا احتساب عوام کرتے ہیں مگر سپریم کورٹ کا کوئی احتساب نہیں کرتا۔ کیا ہم احتساب سے مبرا ہیں؟ عوام کے پیسے سے چلنے والا ہر ادارہ جوابدہ ہوتا ہے۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ پیمرا نے اپنے خط میں سیٹلائٹ چینلز کو ججز کے کنڈکٹ اور ریاستی اداروں پر خبر چلانے سے روکا ہے۔ ’یہ ریاستی ادارے کیا ہوتے ہیں؟ سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں آئینی ریگولیٹری باڈی ہے۔‘

انہوں نے پیمرا پر تنقید کرتے ہوئے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ پیمرا ٹی وی چینلز کو کچھ نشر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟

’سول جج کو گالیاں دے دی جائیں پیمرا نہیں بولتا۔ کیا ماتحت عدلیہ کے ججز کم تر مخلوق ہیں؟ اگر میں اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں اور کورٹ رپورٹرز خبر دے دیں تو ان کا چینل بند ہو جائے گا؟

’پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری تباہ کر رہا ہے۔ پیمرا ان ہی ٹی وی چینلز کے لائسنسوں سے کماتا ہے۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید سوال اٹھایا کہ پیمرا کیوں سیشن اور سول ججز یا مجسٹریٹ کے خلاف بولنے پر ایکشن نہیں لیتا؟

’کیا سپریم کورٹ کے جج بن جائیں تو کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا نمبر 140 کے قریب ہے۔ ہمارا بھی احتساب ہونا چاہئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماعت کے آغاز میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے ’سپیشل‘ بینچ بنانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کیس سننے سے انکار کر دیا اور سپریم کورٹ کے قوانین سے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپیشل بینچ کا بنایا جانا کہا درج ہے؟

’سپریم کورٹ کا ریگولر بینچ کیسز کیوں نہیں سن سکتا؟ اتنا بھی کیا ضروری معاملہ تھا کہ لارجر بینچ یا فل کورٹ کے بجائے خصوصی بینچ بنایا جائے۔‘

انہوں نے اٹارنی جنرل شہزاد الہی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بنچز بنائے جانے چاہئے؟ ہاں یا ناں میں جواب دیں۔

جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر عدالت اس معاملے پر نوٹس کرے گی تو جواب دے دیں گے۔ 

اس دوران پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ روایات پر بھی عمل ہوتا ہے۔ ’ضروری نہیں کہ ہر چیز رولز یا آئین میں درج ہو۔‘

جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر مارشل لا لگ جائے تو اس کو بھی روایتی عمل سمجھ کر قبول کر لیں گے؟ جو آئین و قانون میں درج ہو اسی پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ 

’میڈیکل طلبا کو حافظ قرآن ہونے پر 20 اضافی نمبر دینے کا حکم 14 ماہ پرانا ہے، اگر 20 اضافی نمبر حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر دینے ہیں تو پارلیمان سے قانون سازی کروائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان