پاکستان اور انڈیا کے درمیان متعدد مرتبہ مختلف محاذوں پر جنگیں یا سٹینڈ آف ہوتا رہا ہے، اور کئی ممالک مختلف طریقوں سے پاکستان کی مدد کرتے رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف ماہرین سے بات کر کے جاننے کی کوشش کی کہ ماضی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان لڑی جانے والے جنگوں کے دوران کن ملکوں نے پاکستان کی فوجی، سفارتی اور سیاسی مدد کی، اور اگر پہلگام حملے کے تناظر میں موجودہ صورتِ حال میں جنگ کی نوبت آتی ہے تو پاکستان کو کس طرح کی مدد کی توقع رکھنی چاہیے؟
1965
انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق سال 1965 میں دونوں ممالک کے مابین لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو بھاری امداد فراہم کی۔
پاکستان چونکہ اس وقت امریکی قیادت میں بننے والی فوجی اتحادی تنظیموں سیٹو اور سینٹو کا رکن تھا، لہٰذا جنگ شروع ہونے سے قبل امریکہ نے پاکستان کو ایف 86 سیبر جیٹ طیارے، ایم 47 اور 48 پیٹن ٹینک، فوجی تربیت اور دیگر ساز و سامان فراہم کیا۔
اس کے علاوہ امریکہ نے انڈیا اور پاکستان دونوں پر اسلحے کی پابندی بھی عائد کی تھی۔
اس جنگ کے دوران چین نے بھی پاکستان کی سیاسی و سفارتی حمایت کی، جس میں انڈیا کو سخت وارننگ جاری کرنا، سرحد پر فوجیں منتقل کرنا اور انڈیا پر ملٹری فوکس ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالنا شامل تھا۔
دوسری جانب سعودی عرب نے پاکستان کی مالی مدد کی اور سبسڈی شدہ تیل فراہم کیا اور بین الاقوامی فورمز میں سیاسی حمایت کی۔
سابق وزیرِ اطلاعات مشاہد حسین سید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی میں پاکستان کو مختلف تنازعات کے دوران دوست ممالک کی جانب سے بہت زیادہ تعاون حاصل رہا ہے۔ ’1965 کی جنگ میں چین، ایران، ترکی، سعودی عرب پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے جبکہ چین نے انڈیا کو الٹی میٹم بھی دیا تھا۔‘
اسلام آباد میں مقیم دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1965 کی جنگ میں پاکستان کے زیر استعمال زمینی، فضائی اور بحری افواج میں سے زیادہ تر ہتھیار امریکہ نے فراہم کیے تھے، اور ’جب جنگ کے دوران امریکہ نے اپنے اڈوں اور خالی جگہوں پر پابندیاں عائد کیں تو یقیناً پاکستان نے اپنے مختلف اسلحے اور سپئیر پارٹس کی سپلائی کے لیے انہی ممالک کا رخ کیا جن کے پاس ایک ہی قسم کے امریکی ساختہ ہتھیار تھے جو پاکستان کے زیر استعمال تھے جن میں ایران، ترکی اور بعض عرب ممالک شامل تھے۔‘
1971
1971 کی پاکستان انڈیا جنگ میں بھی چین نے پاکستان کی مضبوط سفارتی حمایت اور اپنی شمالی سرحد پر انڈیا کے لیے خطرہ پیدا کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکہ کی اس دوران پاکستان کی سفارتی مدد کی اور اپنا بحری بیڑا خلیجِ بنگال بھیجنے کا اعلان کیا جس میں ایٹمی اسلحے سے لیس بحری جہاز ’یو ایس ایس انٹرپرائس‘ بھی شامل تھا۔ یہ الگ بات یہ کہ جب تک یہ بیڑا پہنچتا، پاکستان کو پہلے ہی شکست ہو چکی تھی۔
دوسری جانب ایران، سعودی عرب، اردن اور لیبیا نے پاکستان کو فوجی سامان، طیارے اور مالی امداد فراہم کی۔
مشاہد حسین نے 1971 کی جنگ سے متعلق بتایا کہ اس دوران بھی چین بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا تھا اور ’انڈین بمباری کے خوف سے پاکستان کے طیاروں کو پاکستان سے ایرانی حدود میں منتقل کر دیا گیا، اس طرح ایران بھی نے بھی پاکستان کی مدد کی۔ سرحد کے ساتھ واقع تیسرے ملک افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے دور اقتدار میں ان کا ملک بھارتی جارحیت کے پیش نظر غیر جانبدار رہا اور پاکستان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا کہا۔‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے انڈیا کو ساتواں بحری بیڑا بھیجنے کی دھمکی دی۔ اس دوران ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ امریکہ کو اندرا گاندھی جو اس وقت کی وزیر اعظم تھیں، کی انڈین کابینہ میں سی آئی اے کے جاسوس سے معلوم ہوا کہ انڈیا مشرقی پاکستان پر قبضہ کرنے اور بنگلہ دیش کا اعلان کرنے کے بعد مغربی پاکستان پر بھی حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ پھر امریکہ نے ماسکو، اس وقت کے سوویت یونین، اور انڈیا دونوں کو وارننگ دی جس سے پیش رفت رک گئی۔ لہٰذا اس وقت امریکہ پاکستان کے ساتھ ٹھوس طریقے سے کھڑا ہوا تھا۔
سید محمد علی کے مطابق 1971 کی جنگ کو 1965 کے تجربے کے بعد دیکھا جائے تو ’پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کے ذرائع میں تنوع پیدا کیا اور تین قسم کے فرانسیسی، چینی اور امریکی بحری اور فضائی ہتھیار حاصل کیے، جبکہ اسے کچھ ہتھیار روس سے بھی ملے تھے۔‘
1999
1999 میں ہونے والی کارگل جنگ میں پاکستان کو کوئی بڑی فوجی یا مالی مدد نہیں ملی، البتہ کارگل کی جنگ کے دوران انڈیا کو میدانِ جنگ کے علاقے کا لمحہ بہ لمحہ ڈیٹا چاہیے تھا، لیکن امریکہ نے انڈیا کو یہ ڈیٹا فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سابق سینیٹر مشاہد حسین سید بتاتے ہیں کہ ’کارگل جنگ میں ہمارا کیس کمزور تھا لیکن ہمیں بنیادی طور پر چین اور مسلم ممالک کی طرف سے سفارتی حمایت حاصل تھی، تاہم ہم نے اس وقت مغرب کی حمایت کھو دی کیونکہ پاکستانی فوج کے اہلکار لائن آف کنٹرول کے ذریعے انڈیا میں داخل ہو رہے تھے۔‘
دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی نے کہا، ’1999 کو دیکھا جائے تو پاکستان کی فضائی افواج کے پاس تین قسم کے فرانسیسی، چینی اور امریکی ہتھیار تھے اور امریکہ کے علاوہ ان کی صلاحیتوں یا سپلائی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اب بحریہ بھی برطانوی، امریکی اور چینی ہتھیاروں پر مشتمل ہے، اس لیے ان کی آپریشنل صلاحیتوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔‘
اس وقت جنگ کے کتنے امکانات ہیں؟
مشاہد حسین نے انڈیا اور پاکستان کے مابین بڑھتی کشیدگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ میں وہ ممکنہ جنگ کی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی وجوہات بیان کی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا نے جنگی جنون کو ہوا دی ہے لیکن انڈیا دو تین عوامل جانتا ہے۔ جیسے کہ اگر پلوامہ کی طرح انہوں نے پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی جس کے جواب انہوں نے بالاکوٹ پر حملہ کیا، ہم نے جوابی حملہ کیا اور ان کے دو طیارے مار گرائے، ان کے پائلٹ کو پکڑ لیا اور پھر انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ تو وہ جانتے ہیں کہ وہ جو بھی کریں گے، ہم جوابی وار کریں گے۔‘
مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ انڈیا کو صدر ٹرمپ کی جانب سے این او سی سے نہیں ملا، جس کی انڈیا توقع کر رہا تھا۔ ’جنگ کی صورت میں انڈین معیشت کو دھچکہ لگے گا کیونکہ تمام بیرونی سرمایہ کار خصوصاً مغربی سرمایہ کار بھاگ جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں جو کچھ ہندوستانی دفاعی تجزیہ کاروں سے پڑھ رہا ہوں، کہ انڈین فوج پاکستان کے ساتھ مکمل جنگ کے لیے تیار نہیں ہے، جس کا نتیجہ کسی مس ایڈونچر کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’پاکستان کے پاس انڈین جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت اور عزم ہے۔ لہٰذا ان عوامل کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ چین، امریکہ، ایران، ترکی، سعودی عرب اور بین الاقوامی منظر نامے میں دیگر ممالک کی مداخلت سے صورت حال کو سفارتی طور پر بہتر کیا جائے گا۔‘
امریکہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی سے وابستہ سیاسیات کے استاد، جنوبی ایشیا کے بیان الاقوامی تعلقات اور امریکی خارجہ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر اسفند یار میر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا ہے کہ موجودہ صورت حال 2019 کے بحران کی شدت سے آگے نکل جانے کے خطرے کے ساتھ تنازعے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ انڈیا کی قیادت پاکستان پر بھاری قیمت عائد کرنے کے لیے پرعزم نظر آ رہی ہے جبکہ پاکستان کسی بھی انڈین کارروائی کا بھرپور جواب دینے کے لیے یکساں طور پر تیار ہے۔
انہوں نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی حمایت سے متعلق کہا کہ چین سیاسی، سفارتی اور ساز و سامان کی مدد کے ساتھ ایسے بحرانوں کے دوران پاکستان کا سب سے قابل اعتماد شراکت کار کے طور پر پر سامنے آیا ہے۔
اگر جنگ ہوئی تو پاکستان کی مدد کو کون سامنے آئے گا؟
اسفند یار کے مطابق ’موجودہ صورت حال میں چین کی جانب سے ممکنہ طور پر کیلیبریٹڈ مدد فراہم کرنے کا امکان ہے یعنی پاکستان کو سٹریٹیجک توازن برقرار رکھنے میں مدد کی پیشکش کرتے ہوئے ایسی منتقلی سے گریز کیا جائے گا جس سے انڈیا کو مشتعل کیا جا سکے، اور یہ سب علاقائی توازن کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ترکی اور آذربائیجان بھی پاکستان کے مضبوط دفاعی شراکت دار ہیں جو بامعنی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
اسفندیار میر کے مطابق دیگر ممالک کی جانب سے ثالثی کی گنجائش فی الحال محدود دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ نے روایتی طور پر یہ کردار ادا کیا ہے، اور یہاں تک کہ اس وقت بھی کشیدگی میں کمی لانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس وقت پاکستان کے ساتھ مثبت تعلقات کا فقدان ہے۔ جس کی ضرورت پاکستانی فیصلہ سازی کو متاثر کرنے کے لیے درکار ہے۔
انہوں نے کہا، ’خلیجی طاقتیں بھی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کے تیسرے فریق بننے میں دلچسپی رکھیں گی۔ تھیوری میں تیسرے فریق کی معنی خیز ثالثی اور سفارت کاری ابتدائی جھڑپ کے بعد ہی شروع ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ممکن ہے کہ اگر امریکہ اور خلیج موثر طریقے سے منظم کریں تو کوئی پیش رفت ہو سکتی ہے۔‘
دفاعی تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس نیشنیل ڈیفینس یونیورسٹی واشنگٹن میں شعبہ علاقائی و تجزیاتی مطالعات کے سربراہ ہیں اور جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا، ’پاکستان کو خطے میں کسی قسم کی سپورٹ محدود رکھنی چاہیے۔ جنگوں کے دوران سفارتی حمایت سے کہیں زیادہ فوجی امداد کی اہمیت ہوتی ہے جس کی ہم زیادہ ممالک سے امید نہیں رکھ سکتے۔ اس ضمن میں ترکی اور ایران سے امید رکھی جا سکتی ہے، لیکن ایران خود ایک وار زون جیسی صورت حال میں جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ چین ویسے تو پاکستان کی حمایت میں سامنے آیا ہے لیکن وہ ’اس طرز کے ہتھیار نہیں دے سکتا جن کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ اس صورت حال میں شاید قطر یا عمان ثالثی کی پیشکش کریں، اور ایسا سب بدترین صورت حال میں ہو سکے گا، کیوںکہ بحران کے وقت میں پاکستان کے لیے اچھے دوست تلاش کرنا مشکل ہے۔‘
پاکستان کو خود پر ہی انحصار کرنا ہو گا
دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی نے انڈیا سے جنگوں کے دوران پاکستان کو دی گئی فوجی و تکنیکی امداد سے متعلق بتایا کہ پاکستان کو دی جانے والی دفاعی امداد ممالک کے بین الاقوامی تعلقات، تصویری اور دفاعی روایات کے ساتھ ساتھ زمینی، بحری اور فضائی افواج، سازوسامان اور ہتھیاروں کی تربیت پر مبنی ہے۔
محمد علی کہتے ہیں کہ زمینی افواج زیادہ تر چینی ہتھیاروں پر انحصار کرتی ہیں۔ چھوٹے ہتھیار بھی جرمن یا پاکستان آرمی نے ہی بنائے ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ ’آج کے دور میں پاکستان کے زیادہ تر ہتھیار پاکستان کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ چاہے وہ ٹینک ہوں، بکتر بند پرسنل کیریئر، چھوٹے ہتھیار، مارٹر، مشین گن وغیرہ۔‘
سید محمد علی کہتے ہیں، ایف 16 کے علاوہ زیادہ تر طیارے، خاص طور پر جے ایف 17، کے این سی تھنڈر پاکستان اور چین کے بنائے ہوئے ہیں۔ اور فرانسیسیوں کا بھی پاکستان میں سپورٹ بیس ہے۔‘