سعودی عرب میں ’تاریخی‘ عرب لیگ سمٹ

سعودی عرب میں یہ سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا میں سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک سعودی عرب مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر اپنی سفارتی قوت کو بڑھا رہا ہے۔

سعودی عرب کے شہر جدہ میں عرب سمٹ کا اجلاس آج (جمعہ) کو شروع ہو گیا ہے جسے تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔

یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی جمعے کو سعودی عرب پہنچے ہیں جہاں وہ عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے جبکہ شامی صدر بشار الاسد بھی 12 سال بعد اس سمٹ کا حصہ بن رہے ہیں۔

گذشتہ سال فروری میں ماسکو کے حملے کے بعد یوکرینی صدر کا مشرق وسطیٰ کا پہلا دورہ ہے اور اس دوران صدر زیلنسکی کو خطے کے رہنماؤں سے مذاکرات کرنے کا موقع ملا ہے۔

صدر زیلنسکی نے جمعے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا: ’میں سعودی عرب پہنچ گیا ہوں۔ میں عرب لیگ کے سربراہی اجلاس سے خطاب کروں گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔

یوکرینی صدر اس وقت جدہ پہنچے ہیں جب ایک روز قبل بشار الاسد بحیرہ احمر کے کنارے آباد اس ساحلی شہر پہنچے تھے۔

بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے 2011 میں جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن اور خانہ جنگی کی وجہ سے عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کر دی تھی جسے اب بحال کیا جا رہا ہے۔

سعودی عرب میں یہ سربراہی اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا میں سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک سعودی عرب مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر اپنی سفارتی قوت کو بڑھا رہا ہے۔

دوسری جانب رواں ہفتے سعودی عرب کا دورہ کرنے والے شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے جدہ پہنچنے کے بعد کہا تھا کہ ’یہ سربراہی اجلاس بہت اہم ہے اور شامی وفد اس سربراہی اجلاس کو کامیاب بنانے کے لیے یہاں موجود ہے۔‘

جدہ کی مرکزی شاہراوں کو شام سمیت عرب لیگ کے رکن ممالک کے جھنڈوں سے سجایا گیا ہے۔

یہ اجلاس مارچ میں ایران کے ساتھ چین کی ثالثی میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کے بعد شروع ہو رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تہران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے بعد سعودی عرب نے شام کے ساتھ بھی دوطرفہ تعلقات بحال کیے ہیں اور یمن میں امن کے لیے کوششیں تیز کی ہیں۔

ریاض نے خانہ جنگی کے شکار ملک سوڈان سے شہریوں کو نکالنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

کویتی مصنف جواد احمد بخامسین نے رواں ہفتے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’سعودی عرب تمام مبصرین کی نظر میں امن ساز اور ہم آہنگی کی علامت بن گیا ہے اور اس نے اختلافات اور تنازعات کے خاتمے کے لیے اپنے کئی بڑے اقدامات سے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔‘

لیگ کے سیاسی امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل خالد منزلوی نے بدھ کے روز اشرق الاوسط میں لکھا کہ مشرق وسطیٰ کو درپیش چیلنجوں سے ہٹ کر عرب لیگ کے سربراہی اجلاس کو یوکرین کی جنگ اور عالمی اقتصادی بحران جیسے مسائل پر بھی غور کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا: ’درحقیقت پوری دنیا تاریخ کے ایک خطرناک مرحلے سے گزر رہی ہے کیوں کہ بین الاقوامی تعلقات کے نقشے دوبارہ مرتب کیے جا رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ عرب اتحاد خطے کو ’ایک ایسی آواز دے سکتا ہے جو نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا میں سنی جاتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا