سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کی عید کیسی ہو گی؟

سعودی عرب میں بسنے والے 25 لاکھ پاکستانیوں میں سے چند ہی ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے کام کی نوعیت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ عید اپنے ملک میں گزار سکیں۔

عید تو اپنوں میں ہوتی ہے۔ آپ عید پر نئے کپڑے زیب تن کر لیں، بہترین خوشبو سے جسم کو معطر کر لیں، انتہائی لذیذ کھانے تیار کر لیں اور تفریح کا سامان مہیا کرلیں لیکن اگر آپ عید کے دن اپنے گھر والوں، خاندان، دوست اور احباب کے ساتھ نہیں ہیں تو ان تمام اشیا کی لذت ادھوری رہ جائے گی۔

عید کی خوشی ناقص رہنے کی وجہ یہ ہے کہ عید تو اپنوں میں ہوتی ہے، اور عید کے موقعے پر اپنے ساتھ نہ ہو تو میٹھی عید بھی پھیکی معلوم ہوتی ہے۔

عید الفطر کے موقعے پر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خوشی کے اس تہوار پراپنے خاندان والوں کے ساتھ ہوں، لیکن کئی افراد ایسے ہوتے ہیں جو خواہش کے باوجود عید کا دن بھی اکیلے ہی گزارتے ہیں۔

سعودی عرب میں بسنے والے 25 لاکھ پاکستانیوں میں اکثریت ان محنت کش افراد کی ہے جو اپنے خاندان اور اہل وعیال سے دور ان کی زندگی بہتر بنانے اوران کی خواہشات کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے دیار غیر میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔

عید پر ان میں سے چند ہی ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے کام کی نوعیت اس بات کی اجازت دیتی ہو کہ وہ عید اپنے ملک میں گزاریں۔ کام کی نوعیت کے علاوہ سالانہ چھٹیو ں کی ترتیب، قانونی پیچیدگیاں اور سب سے بڑھ مالی اسباب کی فراہمی ایسے عوامل ہیں جن کے باعث ان میں سے اکثر کی عید دیار غیر میں ہی بسر ہوتی ہے۔

ہم نے سعودی عرب میں روزگار کے لیے آنے والے پاکستانیوں سے عید کے متعلق گفتگو کی۔ مجموعی طور پر یہاں یہ دیکھنے میں آیا کہ وہ افراد جن کی اپنے گھر سے دوریہاں پہلی یا دوسری عید ہوتی ہے ان کے لیے یہ خوشی سے زیادہ ملال کا دن ہوتا ہے۔ بعض افراد تو اس حدتک افسردہ ہوتے ہیں کہ وہ عید کے دن خود کو یہاں آنے کے فیصلے پر کوستے ہیں۔

ڈیجیٹل دور نے کچھ آسانیاں پیدا کی ہیں۔ اب وہ عید کے دن مختلف ذرائع سے اپنے پیاروں کا چہرہ تو دیکھ لیتے ہیں لیکن شاید یہ ذرائع بھی ان کے اشتیاق کو اطمینان میں بدلنے کے بجائے ان کی بےچینی میں اضافہ ہی کرتے ہیں۔

آپ سعودی عرب میں رہنے والے عام پاکستانیوں سے پوچھیں کہ ان کی عید کیسے گزرتی ہے تو آپ کو حیرانی ہوگی کی اکثریت کا جواب ہو گا، ’سوتے ہوئے گزرتی ہے۔‘

عید کی نماز کے بعد اپنے ملک میں خاندان والے جمع ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں، عید کی رسومات پوری کی جاتی ہیں، مگر جہاں خاندان ہی نہیں ہے وہاں عید کے بعد شیر خرما کھانے سے زیادہ یا دوستوں کے ساتھ مل بیٹھ کر ناشتہ کرنے کے علاوہ کیا سرگرمی ہوسکتی ہے؟

اس لیے اکثر لوگ رمضان کی تھکن عید الفطر کے پہلے دن ہی اتار لیتے ہیں، یوں نیند بھی پوری ہو جاتی ہے اور اکیلے پن کا احساس بھی نہیں ہوتا۔

البتہ ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔ بعض محلے ایسے ہیں جہاں بہت سے پاکستانی خاندان اکٹھے رہتے ہیں۔ جس طرح سعودی عرب میں رمضان المبارک کا اہتمام پاکستانی محلوں میں دیسی طریقے سے ہوتا ہے اسی طرح پاکستانی محلوں میں عید کی رونق بھی دگنی ہو جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان محلوں میں ان پاکستانیوں کی اکثریت ہوتی ہے جن کے گھر والے ان کے ساتھ رہتے ہیں، لہٰذا یہاں عید سے قبل ہی بازاروں میں عید کا سامان آ جاتا ہے، کھانے پینے کی دکانوں پر تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور چھوارے وغیرہ خریدنے والوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔

سالہا سال سے سعودی عرب میں ہی مقیم پاکستانیو ں کے لیے دیار غیر ہی ان کا دوسرا گھر بن جاتا ہے اور اپنے پہلے گھر جس کو وہ کئی دہائیوں قبل چھوڑ آئے تھے وہاں ان کو زیادہ اجنبیت محسوس ہوتی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ نئے آنے والے پاکستانیوں کے برعکس وہ خصوصی موقعوں پر بھی اپنے ملک واپس جانے تو ترجیح نہیں دیتے۔ کچھ افراد تو ایسے بھی ہیں جن کے گھر والے ان کے ساتھ سعودی عرب منتقل ہوئے، پھر ان کے بچوں کی شادیاں بھی یہیں ہوئیں اور یوں ان کا پورا خاندان ہی سعودی عرب میں رچ بس گیا۔

ایسے افراد اور ان کے خاندان عید کی خوشیوں کے انہی رنگوں سے آشنا ہے جو انہوں نے سعودی عرب میں دیکھے اور ان کے دل کو وہی رنگ بھاتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ