’پشاور سے گاڑی جلال آباد کے لیے لوڈ کی ہے، ایک دن کا راستہ ہے۔ اب چار دن ہوگئے لیکن ہم نہیں پہنچے۔ خیبر میں قطار میں گاڑی کھڑی ہے، روزہ ہے لیکن وقت پر نہ کھانا ملتا ہے، نہ روٹی اور نہ پانی، ہم بہت تکلیف میں ہیں۔‘
یہ الفاظ اکبر جان نامی ڈرائیور کے ہیں، جو گذشتہ کئی روز سے طورخم بارڈر پر پھنسے ہوئے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے ستمبر 2019 میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کے منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کیا تھا۔ اس اقدام کا مقصد دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان روایتی طور پر کشیدہ تعلقات میں بہتری اور دوطرفہ تجارت کو فروغ دینا تھا۔
تاہم طورخم بارڈر پر ٹرمینل کی تعمیر اور افغان سائیڈ پر 24 گھنٹوں میں سے 10 گھنٹے کی بندش سے ہزاروں کی تعداد میں گاڑیوں کا پاکستان اور افغانستان کو ملانے والی شاہراہ پر کھڑے رہنا ایک معمول بن گیا ہے۔
کسٹم ذرائع کے مطابق اس وقت طورخم بارڈر سے لے کر جمرود تحصیل تک 2500 کے قریب گاڑیاں پاکستان۔افغان شاہراہ پر کھڑی ہیں اور طورخم تک پہنچنے میں بیشتر گاڑیوں کو ایک ہفتہ تک لگ سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق پہلے مینوؤل سسٹم میں 1200 سے زائد کارگو گاڑیاں سرحد پار کرتی تھیں، لیکن اب بمشکل 400 سے 500 گاڑیاں سرحد پار کرتی ہیں۔
طورخم میں ہر گاڑی کی نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) سکینر کلیئرنس کے بعد کسٹم ایگزامینشن اور پھر زیرو پوائنٹ پر سکیورٹی فورسز کی چیکنگ سے ایک گاڑی پر کم از کم تین گھنٹے لگ جاتے ہیں جس سے رش میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ملکی خزانے کا روزانہ کے حساب سے کروڑوں روپے کا نقصان بھی ہو رہا ہے۔
طورخم بارڈر پر ہی موجود اکبر جان کنڈیکٹر یا کسی معاون کی عدم موجودگی کے باعث پریشان ہیں، جن کا کہنا تھا کہ سرحد پار کنڈیکٹر کو لے جانے کی اجازت نہیں اور نہ ہی انہیں کھانا پانی ملتا ہے، جس کی وجہ سے وہ بہت تکلیف میں ہیں۔ ’کوئی گھر نزدیک ہو تو روٹی مل جاتی ہے، ایک آدمی کیا کرے گا، گاڑی چلائے گا یا روٹی لینے لنڈی کوتل جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ 24 گھنٹے بارڈر کھلا تو رہتا ہے لیکن ایک گھنٹے کے لیے بھی دونوں طرف گاڑیاں نہیں چھوڑی جاتیں۔ بقول اکبر: ’پہلے پہل مہینے میں ہم چار ٹرپ کرتے تھے لیکن اب ایک بھی نہیں لگتا۔ گرمی بھی ہے اور رمضان بھی، ہم گاڑیوں کے نیچے سوتے ہیں۔‘
اکبر جان نے گذشتہ عید بھی چاروزگئی میں گزاری تھی اور اس سال بھی وہ نہیں جانتے کہ یہ عید ان کی چاروزگئی یا ایوب قلعہ کے قریب آئے گی۔
انہوں نے درخواست کی: ’ہمارا گھر افغانستان میں ہے، عید کے لیے ہم نہیں پہنچ سکتے، برائے مہربانی گیٹ کھول دیں۔‘
کراچی سے کنٹینر لوڈ کر کے تین دن میں پشاور پہچننے والے تواب کو پشاور سے لنڈی کوتل پہنچے اب پانچ دن ہو چکے ہیں۔ انہوں نے طورخم بارڈر پر عملے سے گزارش کی کہ عید قریب ہے، ازراہ کرم گاڑیوں کی کلیئرنس تیز کریں۔
تواب کا کہنا تھا: ’رمضان کا مہینہ ہے، راستے میں سحری و افطاری کے ساتھ ساتھ وضو کے لیے پانی کا ملنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہم ٹرانسپورٹ والوں پر تھوڑا رحم کریں اور بارڈر پر گاڑیوں کے ساتھ نرمی کریں تاکہ ہم سب عید اپنے گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ گزار سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب کسٹم حکام کا کہنا تھا کہ گاڑیوں کو کم وسائل میں مگر انتہائی مہارت کے ساتھ بروقت کلیئر کرنا ان کی ذمہ داری ہے جس میں اب تک کوئی رکاوٹ نہیں ہے، تاہم ماہ رمضان میں افطاری و سحری کے باعث افغانستان شیڈول کے برعکس چلتا ہے، جس سے رش کا یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
کسٹم کلیئرنس ایجنٹ گلاب شینواری نے کہا کہ ’جب تک ایک ہی ٹریک پر ایکسپورٹ امپورٹ ہو گی، رش کا مسئلہ ہو گا۔ چار رویہ ٹریک ناگزیر ہے۔‘
گلاب شینواری نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اب کوئی تاجر طورخم بارڈر پر تجارت کے لیے تیار نہیں۔ ’دیگر بارڈرز سے اگر دو یا تین دن میں گاڑیاں اپنی منزل تک پہنچتی ہیں تو طورخم بارڈر پر دس دن سے بھی زائد لگ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے منڈی تک مال بروقت نہیں پہنچتا بلکہ اکثر و بیشتر گاڑیوں میں پڑے پڑے ہی خراب ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اداروں کے مابین کوآرڈینیشن نہ ہونے کی وجہ سے دن بہ دن مسائل جنم لے رہے ہیں۔
اس حوالے سے این ایل سی کے ترجمان مشاق خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ تین سالوں سے طورخم ٹرمینل پر کام بہت تیزی سے جاری ہے اور چونکہ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے تو اس وجہ سے کام تھوڑا لیٹ ہوگیا ہے، لیکن ہماری پوری کوشش ہے کہ ٹرمینل جلد از جلد مکمل ہوجائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ٹرمینل پر کام بھی جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تجارت بھی نہیں رکی ہے۔ ٹرمینل کی وجہ سے رش نہیں بنا ہوا۔ انشا اللہ ہماری پوری کوشش ہے کہ 2024 کے آخر تک ٹرمینل مکمل ہوجائے۔‘