سوڈان میں جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے سعودی عرب اور امریکہ نے سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان ہفتے کو جدہ میں ابتدائی مذاکرات کے آغاز کا خیرمقدم کیا ہے۔
سعودی عرب اور امریکہ نے مشترکہ اعلامیے میں سوڈان میں متحارب فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ قومی اور عوامی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جنگ بندی اور لڑائی کے خاتمے کے لیے فعال انداز میں بات چیت شروع کریں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ سوڈان میں لڑائی ختم ہونے کے بعد ہی عوامی مشکلات ختم ہوں گی اور متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کا آغاز ممکن ہو گا۔
عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا ہے کہ ’جمعے کو سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کو ان کے امریکی ہم منصب اینٹنی بلنکن نے ٹیلی فون کیا جس میں سوڈان کے متحارب دھڑوں کے درمیان جدہ میں مذاکرات کی میزبانی کے بارے میں مشترکہ اقدام کی پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔‘
سعودی وزارت خارجہ کے بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے مشترکہ اقدام کا مقصد ’سوڈان میں کشیدگی کی سطح میں کمی لانا ہے۔‘
Joint Statement between the Kingdom of Saudi Arabia and the United States of America regarding the start of pre-negotiation talks between representatives of the Sudanese Armed Forces and the Rapid Support Forces in Jeddah on May 6, 2023. pic.twitter.com/fmQj74kaUJ
— Foreign Ministry (@KSAmofaEN) May 6, 2023
دوسری جانب سوڈانی فوج نے بھی جمعے کو کہا کہ اس نے نمائندے سعودی عرب بھیجے ہیں جو سوڈان کی نیم فوجی فورس کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کے عمل کے حوالے سے تفصیلات پر بات چیت کریں گے۔
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ بات چیت کے لیے سوڈان کے متحارب گروہوں کے نمائندوں کی جدہ میں موجودگی کو خوش آئند سمجھتے ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس بات چیت سے تنازعے کا حل نکلے گا، ایک سیاسی عمل شروع ہو گا اور سوڈان میں سکیورٹی اور استحکام واپس آئے گا۔
انہوں نے مزید لکھا کہ یہ میزبانی بین الاقوامی یکجہتی کا نتیجہ ہے، جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ اور کوارٹیٹ ممالک اور سہ فریقی میکانزم کے شراکت داروں کے ساتھ مسلسل کوششوں کے ساتھ کی گئی۔
نرحب اليوم بوجود ممثلين من القوات المسلحة السودانية وقوات الدعم السريع في مدينة جدة، للحوار حول الأوضاع في وطنهم.
ونأمل أن يقود هذا الحوار إلى إنهاء الصرع، وانطلاق العملية السياسية، وعودة الأمن والاستقرار إلى جمهورية السودان.— فيصل بن فرحان (@FaisalbinFarhan) May 6, 2023
سوڈانی فوج کے باقاعدہ سربراہ عبدالفتح البرہان نے بدھ کو جنوبی سوڈان کی طرف سے اعلان کردہ سات روزہ جنگ بندی کی حمایت کی لیکن جمعے کو دن کے آغاز پر نیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورسز نے کہا کہ وہ امریکہ اور سعودی عرب کی سہولت کاری میں ہونے والی گذشتہ جنگ بندی میں تین دن کی توسیع کر رہے ہیں۔
سوڈان کی فوج اور نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورس کے درمیان 15 اپریل کو شروع ہونے والی لڑائی کے بعد کئی بار جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا لیکن کسی جنگ بندی پر عمل نہیں کیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعے کو سوڈان کا دارالحکومت خرطوم فضائی حملوں اور فائرنگ سے گونجتا رہا، لڑائی میں کمی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیے حالانکہ سوڈانی فوج کہہ چکی ہے کہ اس نے جنگ بندی پر مذاکرات کے لیے وفد سعودی عرب بھیجا ہے۔
سوڈانی فوج کے سربراہ عبدالفتح البرہان اور محمد حمدان دقلو، جو نیم فوجی ریپڈ سپورٹ فورسز(آر ایس ایف) کی کمان کرتے ہیں، کے درمیان تقریباً تین ہفتے سے جاری لڑائی میں سینکڑوں افراد جان سے جا چکے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق جعمے کو خرطوم میں فضائی حملے اور دھماکے جاری رہے جن میں ہوائی اڈے کے قریب ہونے والے حملے اور دھماکے بھی شامل ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے سوڈان کے امن، سلامتی اور استحکام کو خطرے میں ڈالنے اور جمہوری حکومت کی بحالی میں رکاوٹ کے ذمے داروں پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی کے باوجود لڑائی کی شدت بڑھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آرمڈ کنفلکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ کے مطابق سوڈان میں جاری لڑائی کی وجہ سے اب تک تقریباً 700 لوگوں کی جان جا چکی ہے۔ زیادہ تر اموات دارالحکومت خرطوم اور مغربی دارفر کے علاقے میں ہوئیں۔
امریکی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ایورل ہینس کی جانب سے جمعرات کو جاری شدہ بیان کے مطابق ’امریکہ کو توقع ہے کہ یہ تنازع طویل عرصے تک جاری رہے گا۔‘
انہوں نے سینیٹ کی ایک سماعت میں بتایا کہ لڑائی ’طویل ہونے کا امکان ہے کیونکہ فریقین کو یقین ہے کہ وہ عسکری طور پر ہی جیت سکتے ہیں، اور انہیں مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے انہیں کوئی خاص فائدہ نہیں دکھائی دیتا۔‘
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کا کہنا ہے کہ لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار شہری اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں، جن میں ایک لاکھ پندرہ ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جنہوں نے پڑوسی ممالک میں پناہ لی ہے۔