پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی مقامی انتظامیہ نے ایرانی ذرائع ابلاغ پر چلنے والی خبروں پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان سے کوئی بھی سرحد پار کر کے ایران میں داخل نہیں ہوا ہے۔
ایرانی سرحد کے قریب واقع بلوچستان کے ضلع واشک کے ڈپٹی کمشنر منیر احمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی سرحد سے کسی کے ایرانی حدود میں داخل ہونے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔‘
ڈپٹی کمشنر منیر احمد کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اطلاع ملنے پر فورسز نے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا جہاں سے کسی کے بھی ایران میں داخل ہونے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایرانی سرحد پر باڑ بھی لگی ہے اور سکیورٹی کے بھی سخت انتظامات ہیں، جس سے ایرانی حدود میں کوئی داخل نہیں ہوسکتا۔‘
ضلع واشک کے ڈپٹی کمشنر نے یہ بات ان ایرانی ذرائع ابلاغ کی خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہیں ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ ہفتے کو ’پاکستانی سرحد کے قریب پانچ ایرانی بارڈر گارڈز مارے گئے ہیں۔‘
ایرانی خبر رساں ادارے ایرنا کے مطابق ’یہ واقعہ پاکستان کے ساتھ سرحد پر اس وقت پیش آیا جب چند مسلح افراد نے غیرقانونی طور پر ایران میں داخل ہونے کی کوشش کی۔‘
ایرنا کے مطابق یہ واقعہ ’سراوان میں پیش آیا ہے جو کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے متصل صوبے سیستان- بلوچستان کے مشرق میں موجود ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب بعض ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ واقعہ ایران میں ہی پیش آیا ہے جہاں مقامی مسلح گروہ کی فائرنگ سے بارڈر سکیورٹی گارڈز مارے گئے ہیں۔
پاکستان نے ایرانی بارڈر سکیورٹی گارڈز کے مارے جانے کو ’دہشت گرد حملہ‘ قرار دیتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وزیر اعظم پاکستان اور ایرانی صدر کے درمیان حالیہ ملاقات میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ہم سرحد کے دونوں جانب دہشت گردی کے خاتمے کے لیے باہمی کوششوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہ کہ ’پاکستان پاک-ایران سرحد کو امن اور دوستی کی سرحد کے طور پر دیکھتا ہے اور اس مقصد کے لیے ایران کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔‘