قطر کے وزیراعظم اور طالبان سربراہ کے درمیان خفیہ مذاکرات: رپورٹ

قطری وزیرِ اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی اور افغانستان کے امیر ہبت اللہ اخونزادہ کے درمیان یہ خفیہ ملاقات 12 مئی کو قندھار میں ہوئی، جس پر امریکہ کو بریفنگ دی گئی۔

شیخ محمد الثانی نے افغان رہنما سے لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمت پر طالبان کی پابندی کو ختم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا (اے ایف پی)

ذرائع نے کہا ہے عالمی برادری کے ساتھ تناؤ کو سلجھانے کے لیے قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے رواں ماہ طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخونزادہ کے ساتھ خفیہ بات چیت کی تھی۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ قطری وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات افغانستان کے حکمرانوں کی جانب سے عالمی تنہائی کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات کے لیے آمادگی کا اشارہ ہے۔

روئٹرز کے مطابق شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی اور ملا ہبت اللہ اخونزادہ کے درمیان یہ ملاقات 12 مئی کو جنوبی افغان شہر قندھار میں ہوئی تھی جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ طالبان کے سربراہ کی کسی بھی غیر ملکی رہنما سے یہ  پہلی ملاقات تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ ان مذاکرات کے بارے میں امریکی صدر جو بائیڈن کو بریفنگ دی گئی اور بائیڈن انتظامیہ طالبان کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے سمیت قطری وزیر اعظم کے ساتھ افغان قیادت کی ہونے والی بات چیت کے ’تمام پہلوں پر تبادلہ خیال کر رہی ہے۔

ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ شیخ محمد الثانی نے ہبت اللہ کے ساتھ اٹھائے گئے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کی ملازمت پر طالبان کی پابندی کو ختم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

یہ ملاقات قطر کے لیے ایک سفارتی کامیابی ہے جس نے خواتین پر طالبان کی پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے تحریک کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو استعمال کرکے بین الاقوامی برادری کی طرف سے کابل کے ساتھ گہرے تعلقات کو آگے بڑھایا ہے۔

امریکہ نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم اور کام کرنے والی خواتین پر پابندی ختم کریں جن میں اقوام متحدہ کے اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں میں کام کرنے والی خواتین کی نقل و حرکت کی آزادی بحال کرنے اور خواتین کو حکومت میں شامل کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق واشنگٹن طالبان کے ساتھ کسی بھی سطح پر مذاکرات کی حمایت کر رہا ہے تاکہ ان غیر معمولی پابندیوں کو ختم کرکے ان سنگین انسانی اور مالیاتی بحرانوں کو کم کر سکے جنہوں نے لاکھوں افغانوں کو بھوک اور بے روزگاری سے دوچار کر رکھا ہے۔

تاہم وائٹ ہاؤس نے مذاکرات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محکمہ خارجہ اور واشنگٹن میں قطر کے سفارت خانے نے اس حوالے سے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

طالبان نے بھی فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

خواتین کی تعلیم اور ملازمتوں پر پابندیوں نے انسانی امداد میں رکاوٹ ڈالی ہے اور یہ اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار کنٹرول کے بعد سے کسی بھی ملک کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کی بڑی وجہ رہی ہے۔

خواتین پر پابندی کے حوالے سے بات چیت

جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل میں مارچ میں پیش کی گئی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی طرف سے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ سلوک انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہو سکتا ہے۔

تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی قانون اور افغان رسم و رواج کی اپنی تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔

ملا ہبت اللہ نے ماضی میں اپنے احکام پر سمجھوتہ کرنے پر بہت کم آمادگی ظاہر کی ہے۔

تاہم شیخ محمد الثانی کے ساتھ ان کی ملاقات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ افغانستان کی عالمی تنہائی کو ختم کرنے اور امدادی پروگراموں کو فروغ دینے کے لیے راستے تلاش کرنے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ ملک بھوک اور غربت میں ڈوب رہا ہے۔

ذرائع نے کہا: ’یہ ایک بہت مثبت ملاقات تھی۔ ہبت اللہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔‘

لیکن دیگر ممالک کی طرف سے طالبان حکومت کو حتمی طور پر تسلیم نہ کرنے کی وجہ ان کے خواتین کے ساتھ برتاؤ اور انسانی حقوق کے حوالے سے خراب ریکارڈ ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ شیخ محمد الثانی نے ہبت اللہ کے ساتھ خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندیاں اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا جس میں اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور دیگر انسانی گروپوں کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی بھی شامل ہے۔

طالبان انتظامیہ جنوری سے یہ وعدہ کر رہی ہے کہ وہ امدادی گروپوں کے خواتین عملے کو کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے تحریری گائیڈ لائنز تیار کر رہے ہیں۔

طالبان نے مارچ 2022 میں لڑکیوں کو ہائی سکولوں میں جانے سے روک دیا تھا اور دسمبر میں یونیورسٹیوں تک اس پابندی کو بڑھا دیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اسلامی نصاب وضع کرنے سمیت ’شرائط‘ پوری ہونے کے بعد وہ لڑکیوں کے لیے سیکنڈری اسکول دوبارہ کھولیں گے۔

انسانی بحران کا حل

ذرائع نے بتایا کہ شیخ محمد الثانی اور ہبت اللہ نے افغانستان کے انسانی بحران کے حل کے لیے کوششوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے چار کروڑ آبادی میں سے تقریباً تین چوتھائی کو انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارے نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ ان کے پاس فنڈنگ ختم ہو رہی ہے۔

ذرائع نے کہا کہ شیخ محمد الثانی نے ہبت اللہ کے ساتھ طالبان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف کوششوں پر بھی بات چیت کی۔ یہ داعش سے وابستہ تنظیم داعش خراسان کو کچلنے کے لیے طالبان کی مہم کے بارے میں بات چیت تھی۔

یہ تنظیم زیادہ تر مشرقی افغانستان میں موجود ہے لیکن اس نے کابل میں اقلیتوں اور سفارت خانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ طالبان القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے ارکان کو پناہ دیتے ہیں۔ تاہم افغان طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

شیخ محمد الثانی نے 12 مئی کو ہی قندھار میں طالبان کے وزیر اعظم ملا حسن اخوند سے عوامی طور پر ملاقات کی تھی۔

تاہم کسی بھی فریق نے ہبت اللہ کے ساتھ بات چیت کا انکشاف نہیں کیا۔

قطر نے 2013 میں عسکریت پسندوں کو دوحہ میں ایک سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی اور واشنگٹن کے ساتھ ان کی بات چیت میں سہولت فراہم کی جس کے نتیجے میں 2020 میں امریکی زیر قیادت بین الاقوامی فورس کے انخلا کا معاہدہ ہوا۔

اگرچہ دوحہ کے افغانستان کے ساتھ کوئی رسمی سفارتی تعلقات نہیں ہیں لیکن کابل میں اس کا سفارت خانہ کھلا ہے اور وہاں امریکہ کی نمائندگی کی جاتی ہے۔

قطر نے طویل عرصے سے بین الاقوامی برادری پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے اقدامات کے ’روڈ میپ‘ پر اتفاق کرے اس حوالے سے ان کی دلیل ہے کہ افغانستان کو تنہا کرنے سے علاقائی سلامتی بگڑ سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا