پاکستان اور چین کے لیے افغانستان میں حقیقی چیلنجز موجود؟

افغان، چینی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کا حالیہ سہ فریقی اجلاس اشارہ ہے کہ چین اور پاکستان دونوں ہی افغانستان سے عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے پر فکرمند ہیں اور چاہتے ہیں کہ افغانستان اس خطرے کو قابو کرنے کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔

چھ مئی 2023 کی اس تصویر میں چینی وزیر خارجہ چن گینگ (بائیں)، پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری (درمیان) اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی (بائیں) اسلام آباد میں سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے موقعے پر (اے ایف پی)

پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، بنیادی طور پر یہ مسائل اس کے پڑوسیوں کے گرد گھومتے ہیں۔

جہاں افغانستان میں پاکستان کی سلامتی اور سفارتی مفادات کو تشویش لاحق ہے، وہیں چین کے ساتھ سفارتی مسائل کو حل کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جو کہ پاکستان کے سیاسی استحکام اور سلامتی کے ماحول میں اہم دلچسپی رکھتا ہے تاکہ دوطرفہ اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔

سات مئی 2023 کو چین، پاکستان اور افغان وزرائے خارجہ کا پانچواں سہ فریقی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ یہ ملاقات پاکستان اور چین دونوں کے لیے حقیقی چیلنجز کے افغانستان میں موجودگی کا اشارہ تھا۔

یہ ملاقات چین کے وزیر خارجہ چن گینگ کے اصرار پر ہوئی تاکہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان سلامتی کے حوالے سے خدشات کو دور کیا جاسکے، جو بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

کابل اور اسلام آباد دونوں کی جانب سے سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے تعاون کے وعدوں کے باوجود خطے میں چینی شہریوں اور منصوبوں کے لیے شدت پسندی جیسے خطرات موجود ہیں۔

چین کے لیے تین گروہ تشویش کا باعث ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند، ترکستان اسلامک پارٹی اور داعش خراسان، چین کے خلاف ان کے بڑھتے ہوئے پروپیگنڈے، آپریشنل تعاون اور حکمت عملی کے گٹھ جوڑ نے بیجنگ کے لیے سکیورٹی خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان خطے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو ختم کرنے میں مدد کے لیے عبوری افغان حکومت کی طرف دیکھ رہا ہے۔

پاکستان میں چین کے لیے سب سے بڑی سکیورٹی تشویش بلوچ علیحدگی پسند گروپ ہے، جو بیجنگ کو تنبیہ کرتا رہا ہے کہ وہ بلوچستان کے شورش زدہ صوبے میں اپنی سرمایہ کاری پر نظر ثانی کرے۔ چین خاص طور پر بلوچ لبریشن آرمی کے خودکش سکواڈ مجید بریگیڈ کے حوالے سے تشویش میں ہے۔

مجید بریگیڈ پاکستان کے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں چینی شہریوں کے خلاف انتہائی ہائی پروفائل حملوں میں ملوث رہا ہے۔ چینی وزیر خارجہ کے دورے سے قبل پاکستان تین بڑے بلوچ علیحدگی پسند رہنماؤں میں سے ایک گلزار امام کی گرفتاری کو سامنے لایا، جو مکران ڈویژن اور گوادر میں اس جیسے دیگر حملوں کا ذمہ دار رہا ہے۔

چین کی سلامتی کے لیے دوسری تشویش ترکستان اسلامک پارٹی، چین مخالف ایغور عسکریت پسند گروپ اور افغانستان میں مقیم داعش خراسان ہے۔

بیجنگ کے اصرار پر، طالبان حکومت نے 2022 میں ترکستان اسلامک پارٹی کو بدخشاں صوبے سے چین اور افغانستان سرحد کے قریب سے افغانستان کے وسطی حصوں میں منتقل کیا تھا۔

مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ ترکستان اسلامک پارٹی کے خلاف طالبان حکومت کی پابندیوں کی وجہ سے اس کے کچھ عسکریت پسندوں نے داعش خراسان کے ساتھ آپریشنل اتحاد بنا لیا ہے۔

اقوام متحدہ کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 50 ترکستان اسلامک پارٹی کے عسکریت پسند داعش میں چلے گئے ہیں۔ مزید برآں داعش خراسان کے ایک گروپ نے ترکستان عسکریت پسندوں سے ملاقات کی ہے تاکہ چین کے خلاف تعاون اور شراکت قائم کی جا سکے۔

دوسری طرف، داعش خراسان کی بڑھتی ہوئی چین مخالف بیان بازی اور حملے ہیں۔ حالیہ برسوں میں داعش خراسان افغانستان اور پاکستان میں سب سے زیادہ جارحانہ اور چین مخالف گروپوں کے طور پر ابھری ہے۔

داعش خراسان نے افغانستان میں جنوری 2023 میں ایک ہوٹل پر بھی حملہ کیا تھا جہاں چینی شہری اکثر آتے رہتے تھے۔ اسی طرح اس عسکریت پسند گروہ نے 2017 میں بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک چینی جوڑے کو اغوا کرنے کے بعد قتل کیا تھا۔

سہ فریقی ملاقات کے دوران چین نے پاکستان کی مدد سے طالبان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی پر زور دیا کہ وہ ترکستان اسلامک پارٹی اور داعش خراسان کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں۔

ان کی نقل مکانی کے علاوہ بیجنگ چاہتا ہے کہ طالبان حکومت ترکستان اسلامک پارٹی کے عسکریت پسندوں کو گرفتار کرکے چینی حکام کے حوالے کرے۔ تاہم طالبان انہیں افغانستان ۔ چین سرحد سے دور علاقوں میں منتقل کرنے کے علاوہ کوئی اور اقدام اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اور مسئلہ جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کے وزیر خارجہ کے ساتھ اٹھایا، وہ تھا تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کا افغانستان سے پاکستان کے خیبر پختونخوا میں دخل اندازی اور افغانستان-پاکستان سرحد کے قریب سرحدی حفاظتی اقدامات میں مسلسل پاکستانی مطالبات کے بعد، طالبان حکومت نے نہ صرف کنڑ اور ننگرہار صوبوں سے ٹی ٹی پی کے داخلی راستوں کو بند کیا بلکہ انہیں پاکستانی سرحدی علاقوں سے بھی دور منتقل کیا ہے۔

اس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کے مزید جنگجو بلوچستان کے قریب افغان سرحدی علاقوں سے پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں۔

ملاقات کے دوران تینوں وزرائے خارجہ نے اس گٹھ جوڑ کو توڑنے اور ان گروپوں کی کارروائی روکنے کے لیے عسکریت پسندی کے خلاف تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ چین نے انٹیلی جنس تعاون کو تیز کرنے اور سکیورٹی مطالبات کو پورا کرنے کے بدلے پاکستانی اور افغان افواج کی آپریشنل صلاحیتوں کو مزید بڑھانے کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔

افغان، چینی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کا حالیہ سہ فریقی اجلاس ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ چین اور پاکستان دونوں ہی افغانستان سے عسکریت پسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے پر یکساں فکرمند ہیں اور چاہتے ہیں کہ افغانستان اس ابھرتے ہوئے خطرے کو قابو کرنے کے لیے مزید سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔

تاہم، چین کا افغانستان اور پاکستان دونوں کے لیے یہ پیغام واضح ہے کہ بی آر آئی فریم ورک کے تحت دونوں ممالک میں مستقبل کی کوئی بھی اقتصادی سرمایہ کاری سیاسی استحکام اور بہتر سکیورٹی ماحول پر منحصر ہے۔ موجودہ صورت حال کی وجہ سے سی پیک منصوبہ پہلے ہی سست روی کا شکار ہے۔

اس مقصد کے لیے بیجنگ نے چین مخالف شدت پسند گروپوں کے خلاف انٹیلی جنس تعاون بڑھانے کے عوض نائٹ ویژن چشمے، بلٹ پروف جیکٹس، ڈرونز اور مشترکہ تربیت جیسے خصوصی آلات کی فراہمی کے ذریعے دونوں ممالک کے ساتھ انسداد دہشت گردی تعاون کو بڑھانے کی پیشکش کی ہے۔

اب یہ دیکھنا اہم ہو گا کہ خطے میں چین مخالف ان گروپوں کی کارروائیوں کے چینی خدشات کے حوالے سے افغان حکومت کیا اقدامات اٹھا پاتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر