آج سے 56 سال پہلے پانچ جون 1967 کو دوسری عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی جو صرف چھ روز تک جاری رہی۔ مصر، اردن، شام اور عراق نے اس جنگ میں بھاری نقصان اٹھایا۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے جس میں مشرقی بیت المقدس کا علاقہ بھی شامل تھا اس پر قبضہ کر لیا۔
اسرائیل نے 1948 میں جتنے علاقے پر قبضہ کیا تھا 1967 کی جنگ میں اس نے اس سے چار گنا زیادہ علاقہ ہتھیا لیا۔ عرب دنیا میں اس واقعے کو آج بھی شدید دھچکہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس جنگ کے بعد عرب اسرائیل تنازع مزید گہرا ہوا گیا۔
اس جنگ میں اسرائیل کی فتح کی اہم وجہ امریکہ ہتھیار تھے جبکہ عربوں کے پا س مقابلے کے لیے روسی اسلحہ تھا جو امریکہ ہتھیاروں کی مقابلے پر کم کارگر ثابت ہوا۔ تاہم اس جنگ میں پاکستان ایئر فورس کے ایک پائلٹ نے بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ اس نے چھ دن میں نہ صرف اسرائیلی ایئر فورس کے تین جہاز مار گرائے بلکہ اردن اور عراق کو بڑے نقصان سے بچا لیا۔
کسی بھی ایک پائلٹ کی جانب سے سب سے زیادہ اسرائیلی جہاز گرانے کا ریکارڈ آج بھی سیف الاعظم کے نام ہے۔ جنگی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ پاکستانی پائلٹ سیف الاعظم ہی تھے جس نے کہ اردن کی ایئر فورس کو مکمل تباہی سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ورنہ مصر کی ایئر فورس تو اس جنگ میں 90 فیصد ناکارہ ہو گئی تھی۔
تین ملکوں کی طرف سے بہادری کے تمغے
سیف الاعظم تاریخ میں وہ واحد ہواباز ہیں جنہیں چار ممالک پاکستان، اردن، عراق اور بنگلہ دیش کی طرف سے جنگی جہاز اڑانے کا اعزاز حاصل ہوا اور جنہوں نے دو ملکوں کے جنگی جہاز تباہ کیے۔ انہیں تین ملکوں کی جانب سے بہادری کے تمغے عطا ہوئے جن میں اردن، عراق اور پاکستان شامل ہیں۔
سیف الاعظم نے اسرائیل کے تین جنگی جہاز گرائے۔ انہیں تاریخ میں اسرائیل کے سب سے زیادہ جہاز گرانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس سے پہلے وہ 1965 کی جنگ میں بھارت کے جہاز بھی گرا چکے تھے۔
سیف الاعظم وہ واحد جنوبی ایشائی پائلٹ بھی ہیں جنہیں جنگی ہوا بازی کی تاریخ میں شامل 22 ممتاز ترین پائلٹس میں شمار کیا گیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے بنائی گئی اس فہرست میں وہ 13ویں نمبر پر موجود ہیں۔
کرنل اعظم قادری اور گروپ کیپٹن محمد علی کی کتاب Sentinels in the Sky, A saga of PAF’s Gallant Air Warriors کے صفحہ 480 پر ان کی پروفائل لکھی گئی ہے جس کے مطابق سیف الاعظم 11 ستمبر 1941 کو مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے۔
1958 میں انہوں نے پی اے ایف سکول سرگودھا میں داخلہ لیا اور 1960 میں کمیشن حاصل کر لیا۔ ایڈوانس تربیت کے لیے انہیں امریکہ بھیجا گیا جہاں انہوں نے ٹی 33 اور ایف 86 جیسے جنگی جہاز اڑائے۔ انہیں امریکی ایئر فورس نے ماہر نشانہ باز کا اعزاز عطا کیا۔ امریکہ سے واپسی پر انہوں نے پہلے 14اور پھر 19 سکواڈرن میں خدمات سرانجام دیں۔
سیف الاعظم نے 1965 کی جنگ میں ایک بھارتی جہاز مار گرایا تھا انہوں نے 19ستمبر کو سرگودھا ایئر بیس سے ایف 86 اڑاتے ہوئے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا جبکہ دشمن کے ایک دوسرے جہاز کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ انہوں نے ا س جنگ میں سیالکوٹ، واہگہ اور قصور کے محاذوں پر دشمن پر بمباری کی۔ اس جنگ میں بہادری پر انہیں ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1966 میں انہیں اردن کی ایئر فورس میں ڈپوٹیشن پر بھیجا گیا جس کا مقصد وہاں کے ہوا بازوں کی تربیت تھا۔ مگر جب عربوں کی اسرائیل کے ساتھ جنگ چھڑ گئی تو پاکستان کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد وہ بھی اس میں شامل ہو گئے۔
جب اسرائیل نے اردن کے سب سے اہم ہوائی اڈے مفرق پر حملہ کیا تھا تو سیف الاعظم نے ایک اسرائیلی جہاز مار گرایا اور دوسرے سے بھی دھواں اٹھتا ہوا دیکھا گیا۔
دو دن بعد اسرائیل نے عراق کے ایک ہوائی اڈے پر حملہ کیا تو یہاں بھی ان کا مقابلہ سیف الاعظم سے ہوا جنہوں نے دو اسرائیلی جہاز مار گرائے۔ عرب اسرائیل جنگ میں جس بہادری کا مظاہرہ انہوں نے کیا تھا اس پر انہیں اردن کی جانب سے ’وسام الاستقلال‘ اور عراق کی جانب سے ’ناوۃ الشجاع‘ کا اعزاز عطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں پاکستان کی جانب سے 1965 کی جنگ انڈین جہاز گرانے پر ستارۂ جرات دیا گیا تھا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد وہ بنگلہ دیش کی ایئر فورس کے ڈائریکٹر آپریشنز، ونگ کمانڈر اور ڈھاکہ کے بیس کمانڈر بھی رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بنگلہ دیش کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے چیئرمین بنائے گئے۔ 1991-96 میں وہ بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے۔ 14جون 2020 کو وہ ڈھاکہ میں انتقال کر گئے۔
1974 میں جب تیسری عرب اسرائیل جنگ چھڑی تو ایک بار پھر پاکستانی پائلٹ ایئر کموڈور ستار علوی نے گولان کی پہاڑیوں پر شامی ایئر فورس کی جانب سے لڑتے ہوئے ایک اسرائیلی جہاز میراج مار گرایا۔ انہوں نے مگ 21 کے ذریعے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
اس جنگ میں مجموعی طور پر جتنا اسلحہ عرب ممالک کے پاس تھا وہ اسرائیل کے مقابلے پرکئی گنا زیادہ تھا، مگر اسرائیل کو برتری اس لحاظ سے تھی کہ اس کا اسلحہ جدید ترین تھا جو امریکی اور فرانسیسی ساختہ تھا جبکہ عرب اتحادیوں کے پا س زیادہ تر ہتھیار روسی ساختہ تھے۔
اس کے علاوہ اسرائیلی فوجی جدید ترین جنگی اصولوں پر تربیت یافتہ تھے۔
اسرائیل کی فوج کی مجموعی تعداد بھی 50 ہزار جبکہ صرف مصر کی دو لاکھ 40 ہزار، شام، اردن اور عراق کی فوجوں کی تعداد تین لاکھ سے اوپر تھی۔ اس طرح اسرائیل کے مقابلے پر عربوں کی فوج 10 گنا زیادہ تھی۔ عربوں کے پاس 957 جہاز اور 2504 ٹینک تھے جبکہ اسرائیل کے پاس صرف 300 جہاز اور 800 ٹینک تھے۔
صرف چھ روز میں عربوں کا جانی نقصان تقریباً 12ہزار اور اسرائیل کا صرف 900 کے قریب تھا۔ اس چھ روزہ جنگ میں عرب ممالک کے 452 جہاز اور اسرائیل کے صرف 46 تباہ ہوئے۔
عرب ممالک کے پاس جنگ کی تلخ یادیں ہیں مگر سیف الاعظم وہ بہادر پائلٹ تھے جس کو آج بھی عرب ہیرو کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کا اعزاز آج بھی برقرار ہے۔