تربت حملہ: خواتین خودکش حملوں کے مخالفین کی ٹرولنگ

جہاں ایک طرف تربت حملے پر سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں وہاں چند لوگ اس کو درست عمل نہیں سمجھتے ہیں جس کی وجہ سےانہیں ٹوئٹرپر ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک خاتون بلوچ عسکریت پسند شاری بلوچ نے 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس سینٹر میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں کو نشانہ بنایا تھا (بی ایل اے)

صوبہ بلوچستان کے ضلع تربت میں حالیہ دنوں میں مبینہ خاتون حملہ آور کے خودکش دھماکے میں ایک پولیس اہلکار جان سے ہاتھ کھو بیٹھا تھا۔ کالعدم بے ایل اے کے دعوے پر کہ یہ حملہ کسی خاتون نے کیا عام صارفین ٹوئٹر پر آرا کا اظہار کر رہے ہیں تاہم مخالفین کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ضلع کیچ اور مکران بلوچستان میں شورش سے متاثرہ علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں، جہاں سکیورٹی فورسز پر حملے اورمسلح گروہوں اور فورسز کے درمیان جھڑپوں کی خبریں تواتر سے آتی رہتی ہیں۔

حالیہ حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تںظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) مجید بریگیڈ نے قبول کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ حملہ ان کی فدائی سمعیہ قلندرانی بلوچ‘ نے کیا۔ 

جہاں ایک طرف اس حملے کی حمایت میں سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں، وہیں چند لوگ اس کو درست عمل نہیں سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں ٹوئٹرپر ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ 

بلوچی زبان کے مشہور شاعر مبارک قاضی مرید بھی ان افراد میں شامل ہیں جن کو ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ (بلوچ ادبی شخصیت) مبارک قاضی مرید کی ٹویٹ کو لائیک نہ کیا جائے۔

’یہ سپیس بلوچ نیشنل پارٹی (بی این ایم) کے رہنما حمل حیدر کے حوالے سے تھی، جنہوں نے میری طرح یہ نقطہ نظراپنایا کہ خواتین کے خودکش حملے نہیں ہونے چاہیے۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس میں الزامات بھی لگائے گئے۔

مبارک قاضی مزید کہتے ہیں: ’ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ کیا اختلاف رائے اتنی بری چیز ہے؟ کیا آپ ہی صحیح ہیں اورباقی سب غلط؟ کیا 100 فیصد معاملات میں ہر وقت آپ ہی صحیح ہیں اور آپ سے ذرا برابر غلطی نہیں ہوسکتی؟ انقلاب شعور سے آتا ہے، شعوری پارٹیاں گالم گلوچ پر یقین نہیں رکھتیں۔‘ 

ادھر ایک دوسری صارف انیلہ یوسف نے ایک تصویر شیئر کی جس میں لکھا تھا، ’عورت کو جنگ میں گھسیٹنا بند کرو۔‘ 

ایک دوسرے صارف حمل حیدر کو بھی ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا، جس پر انہوں نے ایک ٹویٹ بلوچی زبان میں کرتے ہوئے کہا: ’مجھے نہ جنگ کا سامنا ہے، نہ ہی میں مایوسی کا شکار ہوں، لیکن مجھ سے ٹرولنگ کی سیاست برداشت نہیں ہوتی، نہ ہی دوسرے لوگ برداشت کریں۔‘ 

اسی طرح ایک دوسری صارف سماجی اور انسانی حقوق کی کارکن حمیدہ نور نے تربت واقعے پر ٹویٹ کیا: ’کچھ واقعات پر زبان گنگ سی ہوجاتی ہے، سمعیہ بلوچ کا خودکش حملہ اس کے خاندان پر بیتے مظالم کا ردعمل ہو سکتا ہے، لیکن یہ کسی طرح سے بھی قابل قبول نہیں، قوم پرستوں کو اپنی سٹریٹجی پر نظرثانی کرنا چاہیے، خواتین کو اس طرح سے حملے، تحریک میں سیاسی طورپر شامل کرنے سے خواتین کے لیے بھی مشکلات بن رہی ہیں۔‘ 

وہ مزید لکھتی ہیں کہ جس طرح حالیہ واقعات میں نورجہاں اور ماہل بلوچ کی غیرآئینی گرفتاری و تشدد ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’عالمی سطح پر بھی شاید یہ موثر نہ ہو سکیں، پہلے شاری اب سمعیہ نے شعوری طور پر یہ اقدام لیا ہے، لیکن دل ودماغ جیسے سناٹے میں ہیں۔‘ 

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی اور تجزیہ کار ملک سراج اکبر جواس وقت امریکہ میں مقیم ہیں، وہ صوبے کے حالات اور شدت پسندی جیسے معاملات پر نظر رکھتے ہیں۔

وہ حالیہ خاتون کے مبینہ خود کش حملےکے بعد صارفین کی ٹرولنگ پر کہتے ہیں کہ مسلح تنظیموں کے پاس ایسے مخصوص لوگ ہیں جن کا کل وقتی کام سوشل میڈیا چلانا اور اس پر مخالفین کو ٹرول کرنا ہے۔ 

ملک سراج اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ایسے بہت سارے سیاسی کارکن جو یورپ میں سیاسی پناہ لیے ہوئے ہیں فُل ٹائم اسی کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں، یورپ میں حکومت کی طرف سے پورا خرچہ مل جاتا ہے، کام کرنے کی ضرورت نہیں، بس دن رات اسی کام میں لگے ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ مسلح تنظیمیں شروع دن سے اختلاف رائے کے قائل نہیں رہی ہیں۔

’جو بھی ان سے اختلاف رائے رکھے، وہ اسے آئی ایس آئی کا ایجنٹ، بلوچ دشمن اور غدار قرار دے کر ڈسکریڈٹ کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی بات جمہوری طریقے سے منوانے  کے بجائے طاقت سے منوانے کے قائل ہیں۔‘ 

ملک سراج اکبر نے بلوچ خواتین کی شدت پسندی کی طرف رغبت کے حوالے سے کہا، ’بلوچ خواتین کو جذباتی بلیک میل کیا جارہا ہے کہ وہ قومی تحریک میں اپنا حصہ اس حد تک نہیں ڈال رہی ہیں جتنا بلوچ مرد اصلی جنگ (مسلح جدوجہد) میں کر رہے ہیں، خواتین بھی اسی دوڑ میں لگ گئی ہیں کہ وہ قومی تحریک میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا: ’جس طرح شاری اور سمیعہ کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے اس سے یقیناً اور لڑکیاں اس راہ پر گامزن ہوں گی، دنیا بھر میں جنگوں میں خواتین اور بچوں کی تحفظ کے حوالے سے خصوصی احتیاط برتنے کی ہدایت کی جاتی ہے جبکہ بلوچ مسلح تنظیمیں جان بوجھ کر بلوچ خواتین کو اس جنگ میں دھکیل رہی ہیں۔ شاری کے معاملے میں اس کے دو بچے بھی اپنی ماں کی موت کی وجہ سے متاثر ہوئے۔‘

ملک سراج کے بقول، مذہبی حلقوں میں تو کم از کم چند علما یہ کہہ کر خودکش حملوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں، قوم پرستوں پر تو ’مذہبی وعظ و نصیحت کا بھی اثر نہیں ہوگا،‘ اسی لیے یہ ایک تشویش ناک معاملہ ہے کہ وہ کون سے قوانین یا تعلیمات ہیں جن کی بنیاد پر قوم پرستوں کو اس عمل سے روکا جا سکے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا: ’بی ایل اے کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ اپنے مقصد سے نہیں ہٹ رہے، وہ چاہتے یہی ہیں کہ ان کی صفوں میں مزید خواتین آئیں، وہ چاہتے ہیں کہ ان کی کارروائیوں سے ہر طرف دہشت پھیلے، ان کی کارروائیوں کو زیادہ سے زیادہ میڈیا کوریج ملے اور خواتین خود کش بمبار ان تمام مقاصد کے حصول میں غیرمعمولی طور پر مدد گار ثابت ہو رہی ہیں۔‘

ایک دوسرے صارف اور تجزیہ کار عدنان عامر نے بھی تربت واقعے کے حوالے سے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ خواتین کو خودکش حملوں کے لیے استعمال کرنا بلاجواز ہے، جو سخت مذمت کے لائق ہے۔ 

سوشل میڈیا پر خاتون کے خودکش حملے پر بحث جاری ہے جس میں چند صارفین اس عمل کی حمایت میں بھی ٹویٹ کر رہے ہیں۔ 

بلوچ لبریشن آرمی کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ سمعیہ قلندرانی بلوچ عرف سمو ولد عبید قلندرانی سات سالوں سے بلوچ لبریشن آرمی کے ساتھ منسلک تھیں، جبکہ چار سال قبل انہوں نے رضاکارانہ طور پر مجید بریگیڈ کو اپنی خدمات پیش کیں۔

تنظیم کے مطابق 25 سالہ سمعیہ قلندرانی کا تعلق صحافت کے پیشے سے تھا، وہ پانچ سال تک بلوچ لبریشن آرمی کی میڈیا ونگ میں خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ