کوئٹہ کے شہریوں کے لیے گرین بس سروس کا افتتاح

سریاب روڈ شاہراہ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس روٹ کو ہزار گنجی تک توسیع دی جائے گی۔ ابتدائی طور پر اس کا کرایہ 30 روپے مقرر کیا گیا ہے۔

ابتدائی طور پر اس بس سروس کا کرایہ 30 روپے مقرر کیا گیا ہے(تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

حکومت بلوچستان کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کے شہریوں کی سہولت کے لیے آج (بروز پیر) سے گرین بس سروس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

بس سروس کا افتتاح صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ملک نعیم بازئی اور چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے کیا۔

صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ملک نعیم بازئی نے گرین بس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’کافی عرصے سے بسوں کے افتتاح کی کوشش کر رہے تھے۔ مقامی ٹرانسپورٹرز کو اعتماد میں لے کر منصوبے کا آغاز کیا ہے۔‘

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف سیکرٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی نے کہا کہ ’یہ پہلا فیز ہے اس کے بعد مزید 20 بسیں لا رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’مقامی ٹرانسپورٹرز کے خدشات تھے اور آج بھی ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر یہ معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت بسوں کا 18 کلومیٹر کا روٹ ہے، جس پر ہر 15 منٹ بعد بس چلے گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’فیز ٹو کے لیے ہزار گنجی، سبزل روڈ، میاں غنڈی اور ہزارہ ٹاؤن کا انتخاب کیا گیا ہے۔‘

کوئٹہ پیکج کے تحت سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے دیگر منصوبوں کے ساتھ گرین بس سروس کا منصوبہ بھی بنایا تھا، جس کے تحت شہریوں کو سفر کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے آٹھ جدید بسیں خریدی گئی تھیں۔

 تاہم ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد یہ منصوبہ التوا کا شکار ہو گیا تھا۔

موجودہ وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجو نے اپنے حکومت کے آخری وقت میں اس منصوبے کو شروع کرنے کے احکامات جاری کیے، جسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلایا جائے گا۔

اس منصوبے میں آٹھ بسیں شامل ہیں، جنہیں ابتدائی طور پر بلوچستان یونیورسٹی سے ایئرپورٹ روڈ کے راستے بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اینڈ مینیجمنٹ سائنسز تک چلایا جائے گا۔

سریاب روڈ شاہراہ کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس روٹ کو ہزار گنجی تک توسیع دی جائے گی۔ ابتدائی طور پر اس کا کرایہ 30 روپے مقرر کیا گیا ہے۔

ان میں سے کچھ بسیں بڑی اور کچھ چھوٹی ہیں، جن میں خواتین کے لیے مخصوص نشستیں مختص ہیں، جبکہ بسوں میں معذور افراد کو سوار کرنے کی بھی سہولت دی گئی ہے۔

گذشتہ سال اسی مہینے میں سوشل میڈیا پر گرین بسوں کے حوالے سے ایک تصویر وائرل ہوئی تھی، جس میں صارفین نے کہا تھا کہ ’جام کمال خان کے دور میں بننے والا گرین بسوں کا مںصوبہ سرد خانے کے نذر ہو گیا اور بسیں کھڑی کھڑی خراب ہو رہی ہیں۔‘

ان تصاویر کے بعد صوبائی حکومت کو بھی جواب دینا پڑا تھا اور ترجمان حکومت بلوچستان فرح عظیم شاہ کا ایک بیان جاری ہوا کہ ’سوشل میڈیا پر بسوں کی خریداری کے حوالے سے غلط تاثر پیدا کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’گذشتہ دور حکومت میں کسی منصوبہ بندی اور روٹس کی نشاندہی کے بغیر بسوں کی خریداری کی گئی۔‘

’یہ بسیں دو ہفتے قبل یعنی 29 جون 2022 کو کوئٹہ پہنچی ہیں۔ اس ضمن میں سیکریٹری محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے قابل عمل منصوبہ بندی کی سمری ارسال کی گئی ہے، جس میں شامل تجاویز پر جلد فیصلہ کر لیا جائے گا۔‘

دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا: ’یہ منصوبہ 2020 میں شروع کیا گیا تھا، جسے پہلے مرحلے میں کوئٹہ اور بعد میں صوبے کے بڑے شہروں میں شروع کرنا تھا تاکہ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولت میسر ہو سکے۔‘

جام کمال نے مزید لکھا: ’سوچ یہ تھی کہ ابتدائی طور پر نواں کلی، ہنہ، سبزل روڈ، جوائنٹ روڈ، قمبرانی روڈ، شاہوانی روڈ اور پھر کوئٹہ بائی پاس پر نئی تعمیر شدہ سڑکوں پر انہیں چلانا تھا، جن کے لیے باقاعدہ بس سٹاپ اور انتظار گاہ کی سہولت بھی میسر کی جانی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

ساتھ ہی جام کمال نے شکوہ کیا: ’ایک کے بعد ایک منصوبے میں غفلت برتی جا رہی ہے یا انہیں سرد خانے کی نظر کیا جا رہا ہے۔‘

اس اعتراض کے بعد صوبائی حکومت نے ان بسوں کو چلانے کا فیصلہ کیا جو ایک سال بعد آج چلائی جا رہی ہیں۔

پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ یونٹ بلوچستان کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر نور محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت نے پرائیوٹ پارٹی کے ساتھ اوپن بڈنگ کے ذریعے آٹھ بسیں روڈ پرلائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ کے لیے گرین بس سروس کا منصوبہ سابق وزیراعلیٰ بلاچستان جام کمال خان کے دور میں شروع کیا گیا تھا، اور تب ہی اس سے متعلق خریداری کی ابتدا ہوئی تھی۔۔

انہوں نے مزید کہا کہ منصوبے کا آپریشن اور انتظامیہ پرائیوٹ پارٹنر کو دی جا رہی ہے کیونکہ اس سے قبل دو مرتبہ کسی مقامی نجی پارٹی نے منصوبے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ 

ڈاکٹر نورمحمد کہتے ہیں: ’مںصوبے میں شامل آٹھ بسوں میں سے چار 12 میٹر اور چار آٹھ میٹر ہیں اور ہمارا ارادہ آئندہ چھ ماہ میں بسوں کی تعداد کو 20 تک پہنچانا ہے، ایئرپورٹ روڈ اور سریاب روڈ کو کور کرسکیں، جبکہ منصوبے کے فیز تھری میں بسیں شہر کے جنوبی علاقوں تک چلائی جائیں گی۔

’ہم کوشش کریں گے کہ ہائبرڈ یا الیکٹرک بسیں متعارف کروائیں جائیں تاکہ آلودگی بھی کم  ہواور حکومت کا خرچہ بھی بچ سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان