اوول ٹیسٹ میں شکست پر آسٹریلین میڈیا میں ’بال گیٹ‘ کی بازگشت

اوول ٹیسٹ کے چوتھے دن بارش کی وجہ سے کھیل ختم ہونے سے عین قبل گیند کی تبدیلی نے آسٹریلوی صحافیوں اور کرکٹ ماہرین میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ اس تنازعے کو ’بال گیٹ‘ کہا جا رہا ہے۔

31 جولائی 2023 کو لندن کے اوول کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان پانچویں ایشز کرکٹ ٹیسٹ میچ کے پانچویں دن انگلینڈ کی فتح کے بعد انگلینڈ کے سٹیورٹ براڈ (درمیان) ساتھی کھلاڑیوں جیمز اینڈرسن (بائیں) اور زیک کرولی (دائیں) کے ساتھ جشن منا رہے ہیں (اے ایف پی)

آسٹریلوی پریس نے اوول میں ایشز سیریز کے پانچویں ٹیسٹ میں انگلینڈ کی جیت کے بعد ’بال گیٹ‘ تنازعے اور میچ کے بعد ڈرنک کی روایتی دعوت نہ دینے کو بڑے پیمانے پر کوریج دی ہے۔

اوول ٹیسٹ کے چوتھے دن بارش کی وجہ سے کھیل ختم ہونے سے عین قبل گیند کی تبدیلی، جب اوپنرز ڈیوڈ وارنر اور عثمان خواجہ اچھی طرح سے سیٹ تھے، نے آسٹریلوی صحافیوں اور کرکٹ ماہرین میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ اس تنازعے کو ’بال گیٹ‘ کہا جا رہا ہے۔

آسٹریلیا میں ڈیلی ٹیلی گراف نے گیند کی تبدیلی کو ’شرمناک‘ قرار دیا، جب کہ ’دی آسٹریلین‘ اخبار سے وابستہ صحافی پیٹر لالور نے پوچھا کہ کیا امپائرز کے اس ’بلنڈر‘ سے آسٹریلیا کو سیریز جیتنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تبدیلی ’کھیل کے دورانیے کو تبدیل کرتی دکھائی دیتی ہے اور دلیل دی کہ ایسا کرنا مہمان ٹیم کو بہت مہنگا پڑا۔‘

سڈنی مارننگ ہیرالڈ نے سکائی سپورٹس پر سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کے تبصرے کا حوالہ دیا جنہوں نے اسے ایک بہت ’بڑی غلطی‘ قرار دیا جس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

پونٹنگ نے کہا: ’مجھے سب سے بڑی تشویش اس بات پر ہے کہ رپلیس کے لیے منتخب کی گئی گیند کی حالت میں بڑا تضاد تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دنیا میں ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ آپ ان دو گیندوں کو دیکھیں اور کسی بھی طرح سے کہہ سکیں ان میں کوئی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔‘

سابق کپتان کے مطابق: ’یہ اس کھیل میں ایک بہت بڑا لمحہ تھا، ممکنہ طور پر ٹیسٹ میچ کا بڑا لمحہ۔ اور میرے خیال میں اس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔‘

ان کے بقول: ’مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں اور میں کہوں گا کہ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ (پرانی) گیند (آسٹریلین بیٹنگ لائن کے لیے) اتنی تقصان دہ نہ ہوتی جتنی اس نے آج صبح نقصان پہنچایا۔‘

دوسری جانب اسی عنوان پر لکھتے ہوئے کرکٹ کے ماہر ڈینیئل بریٹیگ نے دلیل دی کہ ’بال گیٹ‘ آسٹریلیا کی شکست کا ذمہ دار نہیں تھا۔

انہوں نے کہا: ’متبادل گیند کے حوالے سے سازشیں تلاش کرنا پرکشش ہوسکتا ہے۔ لیکن اوول کی بنیادی سچائی درحقیقت اس ایشز سیریز کے دوسرے نصف حصے میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آسٹریلیا نے بھی اکثر خود کو ایسی پوزیشن میں پھنسا لیا جہاں سے انہیں نکلنے کے لیے کسی معجزے کی ضرورت تھی۔‘

ڈینیئل کے بقول: ’یہ انتہائی مایوسی کا باعث ہو گا کہ پختگی اور اپنے مستقل مزاج کے لیے مشہور ٹیم آخری تین ٹیسٹ میچز سے کسی کو بھی جیتنے کے لیے ایک بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی۔‘

سڈنی مارننگ ہیرالڈ اور ڈیلی ٹیلی گراف دونوں نے رپورٹ کیا کہ سیریز کے بعد کے روایتی ڈرنکس پیش نہیں کیے گئے۔

ہیرالڈ نے انگلینڈ کے ایک ترجمان کا حوالہ دیا جس نے کہا کہ یہ ایک ’غلط فہمی‘ تھی اور آسٹریلیا کے کھلاڑیوں نے جب انہیں اندر مدعو کیا تو وہ گراؤنڈ سے جا چکے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسٹریلین ٹیم کے ترجمان نے اس پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا لیکن ٹیم کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے (ڈرنکس کے لیے) کئی بار انگلینڈ کے ڈریسنگ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک گھنٹے سے زیادہ انتظار کیا۔

انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے ٹویٹ کیا کہ کھلاڑیوں اور آفیشلز کو ان کے آخری ٹیسٹ کے بعد پریزنٹیشن میں کافی وقت لگا تھا تاہم دونوں ٹیمیں شام کو ملی تھیں۔

آسٹریلیا کے ایک اور ماہر کرکٹ گیڈون ہیگ نے پانچ میچوں کی سیریز میں پیش آنے والے ’ڈرامے‘ سے آگے کی بات کی اور اس فارمیٹ کے مستقبل کے لیے اپنے خدشات کا اظہار کیا اس کے باوجود کہ انگلش کپتان بین سٹوکس نے دعویٰ کیا کہ ’یہ ٹیسٹ کرکٹ کی ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیریز میں کلاسک میچز اور کھیل کے لازوال حصے، خاص طور پر میزبانوں کی طرف سے پیش کیے جانے والی کارکردگی کو تسلیم کرتے ہوئے، ہیگ نے تنقید کی کہ ایشز کو مختصر طرز کی کرکٹ کے لیے مزید جگہ بنانے کے لیے اتنے مختصر عرصے میں ہی ختم کر دیا گیا۔

انہوں نے لکھا: ’یہ ایشز سیریز تھی نہ کہ ایشز سمر۔ آسٹریلیا نے 54 جب کہ انگلینڈ نے 60 دنوں میں چھ چھ ٹیسٹ کھیلے۔ آسٹریلیا اب اپنا اگلا ٹیسٹ 14 دسمبر جب کہ انگلینڈ اگلا ٹیسٹ 25 جنوری کو کھیلے گا۔

ان کے بقول: ’دن شروع ہونے سے کچھ گھنٹے پہلے ایک ٹیم نے دوسری ٹیم کو ڈلاس میں ہرا دیا یہ ٹی ٹونٹی کے دو ہفتوں کی سیریز کا اختتام تھا جسے بڑے پیمانے پر انڈین سرمایہ اور بنیادی طور پر ایک آن لائن بیٹنگ کمپنی کی جانب سے سپانسر کیا گیا تھا۔ آج ’دا ہنڈریڈ‘ ٹورنامنٹ شروع کرنے کے لیے ایک ٹیم دوسری ٹیم سے ناٹنگھم میں کھیلے گی جس میں انگلینڈ کرکٹ بورڈ مناسب وقت میں اسی طرح کے کارپوریٹ مفادات کو فروخت کرنے کی کوشش کرے گا۔‘

انہوں نے لکھا: ’ویو دی ایشیز! لانگ لیو ٹیسٹ کرکٹ! یہ سب سے قبل از وقت جشن ہوسکتا ہے۔‘

ڈیلی ٹیلی گراف کے پاس کرکٹ کے لیے کچھ اور پریشان کن خبریں بھی تھیں جیسا کہ ویمنز ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کی کینیڈا کے خلاف فتح کے اعداد و شمار، جو کہ پہلے سیشن کے دوران سامنے آئے، اور جس نے اوول میں آخری دن کے ڈرامے کو ’بڑے فرق سے‘ پیچھے چھوڑا لیکن کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹیو نک ہاکلے نے صرف مردوں کی ٹیم کو کامیاب دورے پر مبارکباد دی۔

انہوں نے کہا: ’ہم سب کو پیٹ کمنز اور ان کی ٹیم پر بہت زیادہ فخر ہے ان کامیابیوں کے لیے جو انہوں نے انگلینڈ کے دورے پر حاصل کیں۔‘

ان کے بقول: ’سکواڈ ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ ٹرافی اور ایشز کے ساتھ واپسی کے لیے پرعزم تھا اور ورلڈ کلاس اپوزیشن کے خلاف اور انتہائی پرجوش اور کبھی کبھار مخالف شائقین کے سامنے اکثر مشکل حالات میں دونوں مقاصد حاصل کرنے کے لیے تمام کھلاڑیوں اور معاون عملے کو کریڈٹ جاتا ہے۔‘

’میں انگلینڈ کو بھی مبارک باد دینا چاہوں گا جن کے دلچسپ کھیل نے سیریز کو اس طرح یادگار بنانے میں مدد کی اور خاص طور پر ریٹائر ہونے والے فاسٹ باؤلر سٹورٹ براڈ  کو جو کئی سالوں سے ایک مضبوط حریف اور مدمقابل رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ