’فوج کا کام ملک کی حفاظت ہے یا الیکشن انجینیئر کرنا؟‘

میں اپنے تمام فوجی دوستوں کی خدمت میں وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا حالیہ انٹرویو پیش کرتا ہوں جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے فوج کے سابق سربراہ کے ساتھ مل کر 2008 کے انتخابات میں انجینیئرنگ کی۔

سابق  آرمی چیف اور صدر  جنرل پرویز مشرف  2007 میں جنرل اشفاق کیانی کو  آرمی سربراہ کا عہدہ سونپنے کی ایک تقریب میں (روئٹرز فائل)

فوج تو اپنے کام میں لگی ہوئی ہے اور اب تو سولین بالادستی کو مانتے ہوئے ایک پیج پر ہیں۔ فوجی دوست مجھ سے یہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ میں بغیر ثبوتوں کے فوج پر سیاسی انجینیئرنگ کا الزام لگاتا ہوں۔

میں اپنے ان تمام فوجی دوستوں کی خدمت میں وزیر داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا ایک نجی چینل پر چلنے والا حالیہ انٹرویو پیش کرتا ہوں کہ کس طرح فوج کے سابق سربراہ اور انہوں نے مل کر 2008 کے انتخابات میں انجینیئرنگ کی۔

انہوں نے بتایا کہ فوج کے سربراہ نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے درمیان معاہدہ کروایا تھا مگر یہ نہیں بتایا کہ کس حیثیت میں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جنرل کیانی نے منصوبہ بندی کی تھی کہ کس پارٹی کو کتنی نشستوں پر کامیاب کروانا ہے۔

جتائیں یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ فوج کے سربراہ کو یہ کام کس نے دیا کہ وہ الیکشن میں پارٹیوں کی سیٹوں کے بارے میں فیصلہ کریں؟ کیا فوج کے سربراہ کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ فوج کا سیاست میں عمل دخل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے؟

اب میں اپنے ان فوجی دوستوں سے یہ سوال کرتا ہوں کہ فوج کے سیاسی انجینیئرنگ کرنے کے بارے میں ان کے اپنے ہی ایک ساتھی ثبوت کے طور پر حاضر ہیں۔ کیا اب وہ یہ جرات کریں گے کہ اس بات کی تحقیق کروائیں اور ان لوگوں کو سزا دلائیں جو فوج کو سیاست میں ملوث کرتے ہیں؟ اس لیے کہ یہ فوج کے آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فوجی سربراہ جو سارا وقت سیاسی جوڑ توڑ میں لگا ہو وہ اپنا کام مکمل یکسوئی سے کر سکے جو کہ سرحدوں کی حفاظت اور دشمنوں کے عزائم پر نگاہ رکھنا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

موجودہ فوجی قیادت بھی کشمیر سے زیادہ صادق سنجرانی کے بارے میں فکر مند تھی۔ اسی لیے میں اپنے ان فوجی افسر دوستوں سے یہ بھی درخواست کر رہا ہوں کہ وہ میرے پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کے مطالبے کی حمایت کریں تاکہ فوج کے ادارے کو مزید تباہی سے بچایا جائے ورنہ دس سال بعد ہمیں پھر کوئی ریٹائرڈ بریگیڈیئر بتا رہا ہوگا کہ 2018 کے الیکشن میں انجینیئرنگ کیسے ہوئی تھی۔

مگر صرف فوج ہی نہیں پاکستان میں اپنے آپ کو جمہوریت کی ماں کہنے والی پارٹی پی پی پی کو بھی ہمیں یہ بتانا چاہیے کہ وہ کیوں ایک فوجی سربراہ کو درمیان میں ڈال کر سیاسی ڈیلیں کر رہی تھی۔

اور کیا ایسی ہی ڈیل 2018 کے سینٹ الیکشن میں بھی کی گئی تاکہ سندھ میں اپنی حکومت قائم رکھی جا سکے اور کیا سینیٹ چیئرمین کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی اسی لیے ناکام ہوئی کہ سندھ کی حکومت کھونے کا خطرہ تھا؟

اگر پیپلز پارٹی ان سوالوں کے جوابات نہیں دیتی تو ان کا سیاسی مستقبل جو پہلے ہی آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے یقینی طور پر اور زیادہ تیز رفتار سے اپنے اختتام کی طرف بڑھے گا۔

میں امید کرتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کے جمہوریت پسند رہنما اور کارکن شیری رحمان، رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر اس بارے میں قوم کو ضرور آگاہ کریں گےکیونکہ یہی وجہ ہے کہ جب 2018 کے بعد پارلیمانی کمیٹی بنی تو پیپلز پارٹی نے خود اس کی صدارت عمران خان کی حکومت کو دی تاکہ حقائق سامنے نہ آ سکیں کیونکہ ان کی سندھ حکومت بھی 2018 کی سیاسی انجینیئرنگ کا نتیجہ ہے۔

میاں شہباز شریف کو بھی اس طرح کے بہت سے سوالوں کے جوابات دینے ہیں کیونکہ انہیں بھی انجینیئروں کے ساتھ ڈیلیں کرنے کا بہت شوق ہے۔

کشمیر پر بات کرتے ہوئے بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے فخر سے بتایا کہ مودی کے الحاق کے بعد عمران خان اور ان کی حکومت بہت بھاگ دوڑ کر رہی ہے مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہندوستان کے کشمیر پر غاصبانہ قبضے سے پہلے حکومت سو کیوں رہی تھی؟

---------

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر منصف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 
 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ