اب وہ سینیما گھر بھی نہیں رہے

سب سے مشکل کام کسی فلم کی ریلیز کے پہلے دن پہلے شو کی ٹکٹ حاصل کرنا ہوتا تھا۔

لاہور کے ایک سینما کے باہر یکم اگست 2008 کو ایک شخص اپنے بیٹے کو کندھوں پر اٹھائے فلم کے پوسٹر کو دیکھ رہا ہے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی کو اس قدر خوبصورتی سے کیسے برباد کیا تو میں انہیں جواب دیتا ہوں ’کالج کے زمانے میں فلمیں دیکھ کر۔‘

دراصل میرا کالج کا زمانہ نہایت بور تھا، کہنے کو تو میں گورنمنٹ کالج، لاہور میں زیر تعلیم تھا (جس کا نام مضحکہ خیز طور پر تبدیل کر کے اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کر دیا گیا ہے) مگر اصل میں لکشمی چوک، لاہور میں پایا جاتا تھا۔ حقیقت اور مجاز کا فرق اسی کو کہتے ہیں۔

نوجوان نسل نے چونکہ لکشمی چوک کی پرانی شکل نہیں دیکھی تو ان کی آسانی کے لیے عرض کر دوں کہ لکشمی چوک، ایبٹ روڈ اور رائل پارک کا علاقہ فلموں کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہاں قطار اندر قطار سینیما گھر ہوا کرتے تھے جن میں اردو اور پنجابی فلمیں لگا کرتی تھیں، انگریزی فلمیں زیادہ تر پلازہ سینیما اور ریگل سینیما میں لگتی تھیں اور بہت زیادہ انگریزی فلموں کے لیے مون لائٹ سینیما مشہور تھا۔

بہت زیادہ انگریزی کا مطلب یہ ہے کہ ان فلموں کی انگریزی سمجھ نہیں آتی تھی۔ لہذا ان کی آواز ہی بند کر دی جاتی تھی۔ جہاں بیڈن روڈ ختم ہو کر لکشمی چوک کی طرف نکلتی تھی، مون لائٹ سینیما وہاں واقع تھا جبکہ پلازہ سینیما کوئنز روڈ پر اور ریگل سینیما اس کے عقب میں یعنی ریگل چوک پر ہوا کرتا تھا۔

اردو اور پنجابی فلموں کے لیے عموماً شبستان، کیپیٹل، اوڈین، گلستان، میٹروپول، پرنس، محفل اور رتن سینیما مشہور تھے۔ رائل پارک کا علاقہ بھی قریب ہی تھا مگر یہ فلموں کی ڈسٹریبیوشن کا مرکز تھا جبکہ فلم سٹوڈیوز ملتان روڈ پر واقع تھے جن میں شاہ نور، باری اور ایورنیو سٹوڈیو زیادہ مشہور تھے۔

اس سے پہلے کہ آپ اس تمہید سے بور ہو جائیں، میں یہ عرض کر دوں کہ جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں وہ 90 کی دہائی ہے جب سینیما میں فلم دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ سینیما تو آج بھی ہیں جہاں جا کر آپ فلم دیکھ سکتے ہیں مگر وہ بات کہاں مولوی مدّن کی سی! آج کل کے سینیما تو ماچس کی ڈبیا ہیں جن میں بس دو چار سو لوگ ہی فلم دیکھ سکتے ہیں، اور پھر اِن سینماؤں میں نہ ٹکٹ حاصل کرنے کا ’تھرل‘ ہے اور نہ ہی ’ہاف ٹیم‘ میں کوئی کینٹین والا بوتلیں کھڑکھڑاتا ہوا آتا ہے۔

اگر کسی فلم میں کوئی گانا ہٹ ہو جائے تو فقط ایک ہی مرتبہ چلتا ہے، آپ پروجیکٹر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’دوبارہ چلا اوئے‘۔ اور پھر یہ نام نہاد سنی پلیکس ایک وقت میں چار چار فلمیں چلا رہے ہوتے ہیں، وہ گولڈن جوبلی ہفتہ اور پلاٹینم جوبلی ہفتہ والی بات ہی نہیں رہی۔

یہاں رک کر مجھے ایک مرتبہ پھر اپنے نوجوانوں کو بتانا پڑے گا کہ ان فلمی اصطلاحات اور روایات کا کیا مطلب ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ لکشمی چوک کے سینیما گھر کافی بڑے تھے جن میں ایک وقت میں عموماً چھ سات سو لوگ فلم دیکھ سکتے تھے، سب سے مہنگی ٹکٹ باکس کی ہوا کرتی تھی۔

اس کے بعد گیلری، پھر سٹال اور کسی سینیما ہال میں لوئر سٹال بھی ہوتا تھا جس کی ٹکٹ سب سے سستی ہوتی تھی کیونکہ وہاں بیٹھ کر فلم دیکھنے کے لیے آپ کو گردن اوپر اٹھا کر رکھنی پڑتی تھی۔

سب سے مشکل کام کسی فلم کی ریلیز کے پہلے دن پہلے شو کی ٹکٹ حاصل کرنا ہوتا تھا۔ اس دن ڈسٹری بیوٹر نہایت چالاکی سے چند ٹکٹیں ہی فروخت کے لیے کھڑکی پر رکھتے تھے اور باقی اپنے دوستوں میں تقسیم کرتے تھے تاکہ وہ آئیں اور فلم کی تعریف کرکے اسے ہٹ کروائیں۔

یہ تکنیک کبھی کارگر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ جس فلم نے ناکام ہونا ہوتا تھا۔ وہ ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود ناکام ہو جاتی تھی۔ پہلے شو کی ٹکٹ لینے میں اس خاکسار کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ میں چھلانگ لگا کر لوگوں کے اوپر سے تیرتا ہوا کھڑکی تک جاتا اور تقریباً اپنا ہاتھ تڑوا کر ٹکٹ لیتا۔

اس زمانے میں ایک سینیما میں ایک ہی فلم لگتی تھی اور وہ فلم جتنے ہفتے لگتی اتنی ہی کامیاب سمجھی جاتی۔ اسی مناسبت سے اس کا سلور جوبلی، گولڈن جوبلی اور پلاٹینم جوبلی ہفتہ منایا جاتا۔

اس پورے کام میں سب سے زیادہ لطف مجھے انٹرول میں آتا تھا۔ ایک تو فلم اس وقت اپنے جوبن پر ہوتی اور پھر جوں ہی انٹرول ہوتا اور سکرین کے آگے پردہ آنے لگتا تو سینیما ہال کی لائٹیں آن کر دی جاتیں جس کے ساتھ ہی سینیما کی کینٹین والے بوتلیں کے ’ڈالے‘ کندھوں پر رکھ کر نمودار ہو جاتے اور انہیں چابی سے کھڑکھڑانے لگتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوجوانوں کو شاید یہ بات عجیب لگے مگر حقیقت یہی ہے کہ ڈالا صرف ’ویگو‘ ہی نہیں ہوتا، بوتلوں کا بھی ہوتا ہے۔

ارے ہاں، وہ گانے والی بات تو رہ ہی گئی۔ شائقین کو جب کوئی گانا پسند آجاتا تو وہ پروجیکٹر کی کھڑکی کے آگے ہاتھ کر دیتے جس کا مطلب یہ ہوتا کہ انہیں یہ گانا دو مرتبہ دیکھنا ہے۔ تاہم جب متعدد شوز میں یہ بات دہرائی جاتی تو پھر بغیر فرمائش کے ہی گانا دو مرتبہ چلا دیا جاتا۔

ان سینیما گھروں کے باہر فلمی بورڈ بھی بہت دلکش ہوتے تھے۔ یہ بورڈ غالباً رائل پارک میں ہی پینٹ کیے جاتے تھے، اب تو ڈیجیٹل پرنٹنگ کا زمانہ ہے، وہ مصوری تو اب ماضی کا قصہ ہوئی۔ فلم دیکھنے کے بعد لکشمی چوک سے کھانا کھانا بھی پیکج کا حصہ ہوا کرتا تھا۔

سینیما گھروں کے باہر تانگوں اور رکشوں کی قطاریں لگی ہوتی تھیں اور ایک عجیب گہما گہمی اور میلے کا سا سماں ہوتا تھا۔ا ٓخری شو نو سے بارہ کا ہوتا تھا مگر اصل میں وہ فلم دس بجے شروع ہوتی اور رات ایک بجے ختم ہوتی تھی، یہ شو عموماً کاروباری لوگ دیکھتے تھے۔

اتوار کو صبح 11 بجے ایک ’سٹوڈنٹ شو‘ بھی ہوا کرتا تھا۔ ہم لوگ اکثر کالج سے کلاس ’مِس‘ کر کے یہ شو دیکھنے جایا کرتے تھے۔

ایسے ہی ایک مرتبہ ہم یہ شو دیکھنے گئے، ہال تقریباً خالی تھا، گیٹ پر کوئی نہیں تھا، ہماری جیب میں کسی پرانی فلم کی ٹکٹیں تھیں۔ ہم نے سوچا ٹکٹ خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں، کس نے پوچھنا ہے، ہم چپ چاپ ہال میں جا کر بیٹھ گئے، ایک دوست جو پیچھے رہ گیا اس سے کسی نے ٹکٹ کا پوچھ لیا، بجائے اس کے کہ وہ اپنی ٹکٹ خرید لیتا، وہ خاص طور سے اندر آیا اور ہمیں آواز دے کو بولا ’آجاؤ یار‘ ہم پکڑے گئے ہیں۔‘

لکشمی چوک آج بھی وہیں ہے، دو چار سینیما گھر میں موجود ہیں، مگر اب نہ وہ ماحول ہے اور نہ وہ دوست اور اب ہم میں ہمت بھی نہیں کہ مفت فلم دیکھنے کا رسک لیں۔ ایسے میں کسی نے کہہ دیا کہ ’آجاؤ یار ہم پکڑے گئے ہیں‘ تو کسی کو کیا منہ دکھائیں گے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ