’بلوچی زبان کے میر تقی میر‘ کا انتقال

بلوچی زبان کے معروف شاعر مبارک قاضی 68 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔

مبارک قاضی نے بلوچی زبان کو اپنی شاعری کے ذریعے گھر گھر تک پہنچایا: مقبول ناصر(مبارک قاضی/ فیس بک پیج)

بلوچستان کے معروف مزاحمتی شاعر مبارک قاضی 68 سال کی عمر میں 16 ستمبر کو تربت میں انتقال کر گئے۔

انہیں ان کے آبائی علاقے پسنی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ مبارک کے ایک عزیز اکرم بلوچ نے بتایا کہ وہ اپنے ایک دوست کے پاس تربت میں دو ہفتے سے ٹھرے ہوئے تھے کہ گذشتہ رات ان کا انتقال ہو گیا۔

تربت کے ادیب اور لکھاری مقبول ناصر کہتے ہیں کہ مبارک قاضی نے بلوچی زبان کو اپنی شاعری کے ذریعے گھر گھر تک پہنچایا۔ 

’شاید کسی اور شاعر نے ایسا کام نہیں کیا۔ انہوں نے نئی نسل کو بلوچی زبان، بلوچ ثقافت اور سیاست کے ساتھ شاعری کے ذریعے جوڑے رکھا۔ ان کی شاعری کو بلوچ قومی تحریک کا ترجمان بھی کہا جاتا ہے۔‘ 

مقبول کے مطابق: ’اگرچہ مبارک جسمانی لحاظ سے جدا ہو گئے ہیں، لیکن ان کی شاعری کے اثرات کو نئی نسل کی شاعری میں اور ان کی زبان کے روزمرہ کے استعمال کے حوالے سے سب سے مضبوط اور توانا آواز کہا جا سکتا ہے۔ بعض لوگ انہیں بلوچی زبان کا میرتقی میر بھی کہتے ہیں۔‘

مقبول کہتے ہیں کہ ’ان کی شاعری میں ہمیں بلوچستان کی سیاسی صورت حال، ہر قسم اور ہر رنگ موضوعات ملتے ہیں۔

’انہیں 1980 کی دہائی میں سیاسی بنیادوں پر گرفتار کر کے مچھ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ وہ متواتر ادبی اور سیاسی منظرنامے پر چھائے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’مبارک کی شاعری عام فہم اور ضرب المثل کے طورپر استعمال ہوتی ہے۔ ان کی شاعری اور مصرعے گھروں اور محافل میں بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں۔‘

مبارک قاضی کون تھے؟

بلوچی زبان کے رسالے سچکان میں اکرم صاحب خان لکھتے ہیں کہ مبارک 24 دسمبر، 1955 کو پسنی کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔

’مبارک قاضی 1972 میں میٹرک کے بعد تعلیم کے لیے کراچی چلے گئے اور سندھ مسلم کالج میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم پوری نہ کرسکے اور واپس پسنی آ گئے۔ وہ چھ مہینے تک محکمہ ماہی گیری میں لیبارٹری اسسٹنٹ رہے۔‘ 

اکرم کے مطابق ’1978 میں مبارک نے دوبارہ پڑھنے کا ارادہ کیا اور کراچی چلے گئے۔ وہاں سے انٹر کرنے کے بعد بی اے کرنے کے لیے اردو آرٹس کالج میں داخلہ لیا۔

’1983 میں بی اے کرنے کے بعد 1984 میں کوئٹہ کا رخ کیا اور بلوچستان یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یوں 1986 میں ایم اے آئی آر کیا۔‘ 

اب تک مبارک قاضی کی 10 کے قریب بلوچی شاعری کی کتابیں شائع ہوئی ہیں جبکہ کچھ چھپائی کے مرحلے میں ہیں، جن میں درج ذیل کتب شامل ہیں۔ 

 1- زرنوشت 

2 - شاگ ماں سبزیں ساوڈء

3- منی عہدءِ غمءِ قصہ 

4 - حانی منی ماتیں وطن 

5 - چولاں دریا یل داتگ 

6 - مرگ پہ کدوہاں رپتگاں 

7 - جنگل چنچو زیبا اِنت 

8 -آپ سماکءَ جتگ 

9 - گسءَ واتر کنگ لوٹاں 

10- شکلیں جورانی برورد 

ان کی شاعری کو بلوچستان کے بلوچی زبان کے اکثرگلوکاروں نے بھی گایا ہے، جن میں مشہور گلوکار نورخان بزنجو، نصیراحمد، عارف جان اور استاد رسول بخش فرید شامل ہیں۔

نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان میرعلی مردان خان ڈومکی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ ’قاضی مبارک بلوچی ادب کے عظیم شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان تھے جن کی ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔‘

‏نگران صوبائی وزیر برائے کھیل و ثقافت و امور نوجوانان نوابزادہ جمال خان رئیسانی نے ایک بیان میں کہا کہ ’مبارک قاضی کی وفات سے بلوچی شاعری اور ادب کا ایک باب تمام ہوا۔

’وہ نہ صرف شاعراور دانش ور تھے بلکہ انہیں ہمشہ لیجنڈ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ بلوچی زبان اورادب کے اس خلا کو پرُ نہیں کیا جاسکے گا۔‘

بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ براہوی کے پروفیسراور شاعر منظوربلوچ کا ماننا ہے کہ ’بلوچستان میں بلوچی زبان میں شاعری کرنے والے مبارک قاضی کو جتنی عزت اور پذیرائی ملی شاید ہی کسی کو ملی ہو، بے باک اور دھڑلے سے شاعری کرنے والے ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ ‘

انہوں نے کہا کہ ’وہ نہ صرف شاعری کے ذریعے مزاحمت کرتے تھے، بلکہ عملی زندگی میں بھی شامل رہتے تھے، جو ہم نے بہت کم شاعروں میں دیکھا۔ وہ جس حالت میں رہتے تھے، وہی دکھاتے تھے اور اشرافیہ کے طرز عمل کو چیلنج کرتے تھے۔‘

منظور بلوچ نے بتایا کہ ان کی شہرت کی ایک وجہ ان کی عام فہم شاعری اور آسان الفاظ کا استعمال بھی ہے۔

’مکران میں حالات کو تبدیل کرنے میں مبارک قاضی کی شاعری کا کردار بہت مختلف ہے، یہ وہ شاعر تھے، جن کو اپنی پہچان نہیں کرانی پڑتی تھی۔

’یہی وجہ ہے کہ جب وہ محفل میں آتے تھے اور ان کو جتنی پذیرائی ملتی تھی وہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

’حالیہ دنوں میں بلوچستان سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کونسل سیشن کے دوران میں نے دیکھا کہ پورا حال مبارک کے استقبال میں کھڑا ہو گیا، جس کی وجہ نوجوانوں سے ان کی محبت بھی تھی۔‘

منظوربلوچ کہتے ہیں کہ ’مبارک ایسے شاعر تھے جو ہر جگہ بیٹھ جاتے تھے، جس حالت میں ہوتے تھے اس کی پروا نہیں کرتے تھے ملنگ آدمی تھے۔ جو کچھ کرتے تھے سرعام کرتے تھے، یہی چیز ان کو دوسرے شاعروں سے ممتاز کرتی ہے۔‘

ادھر اسلام آباد میں واقع اکادمی ادبیات پاکستان کی صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے بھی بلوچی زبان و ادب کے ممتاز شاعر اور ادیب مبارک قاضی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے اکادمی کے فیس بک پیج پر جاری اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ ’مبارک قاضی بلوچی زبان کی ایک قد آور ادبی شخصیت تھے۔ ان کی رحلت سے بلوچی زبان و ادب ایک اہم لکھنے والے سے محروم ہو گیا۔‘

اکلوتے بیٹے کی پراسرارموت 

مقبول ناصر نے بتایا کہ مبارک کی زندگی میں ایک اہم موڑ وہ تھا جب ان کے اکلوتے بیٹے ڈاکٹر کمبر قاضی کی پراسرار موت ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ پہلے یہ خبر آئی کہ کمبر حادثاتی طورپر گولی لگنے سے چل بسے، پھر کہا گیا کہ انہیں اپنے ہی ساتھیوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا، اس خبر اور بیٹے کی موت نے مبارک کو بہت زیادہ متاثر کیا۔

مقبول کے مطابق ’کمبرکی موت کے بعد لگتا تھا کہ مبارک قاضی ٹوٹ چکے ہیں۔ کبھی لگتا کہ وہ اپنے شعور کے دائروں سے ہٹ رہے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس واقعے نے قاضی اور ان کی خاندان کو بہت صدمہ پہنچایا۔‘

مبارک قاضی کی ایک غزل

پھول پرندے بادل خوشبو کچھ بھی نہیں

کچھ بھی نہیں سیلاب نہ آنسو کچھ بھی نہیں

جس کا جو بھی جی چاہے قانون وہی

نہ پیمانہ کوئی ترازو کچھ بھی نہیں

میں اک ایسے پریم نگر آ پہنچا ہوں

بوجھل پلکیں بکھرے گیسو کچھ بھی نہیں

میں نے اپنے اندر جھانکا تو دیکھا

چاروں سو سب کچھ ہے ہر سو کچھ بھی نہیں

کوہ قاف سے آئی ہے وہ شہزادی

اس پہ چلے گا سحر نہ جادو کچھ بھی نہیں

ان بوسیدہ ہڈیوں میں کیا رکھا ہے

عمر رواں نہ زور نہ بازو کچھ بھی نہیں

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب