انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے تقریباً 30 کلومیڑ دور حاجن کا علاقہ شاعروں اور شاعری کا گہوارہ ہے۔
حاجن ایشیا کی سب سے بڑی ’ولر جھیل‘ اور دریا جہلم کے کنارے پر آباد ہے۔
حاجن میں شاعروں کی تعداد دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہاں کی پُرکیف فضا میں تخلیقی صلاحیتیں خوب نشو نما پاتی ہیں۔
جیسے ساگر سرفراز نے کہا ہے
بِہ چُھس تِم پتھرِی ہُند بَسکین ساگر، میئہ بَاسَان یِت چُھ سورِء گام شا٘عر
ترجمہ: میں اس خطے کا باسی ہوں، جہاں مجھے ہر کوئی شاعر لگتا ہے۔
یہ علاقہ ایک زمانے سے شعر و ادب کی سرپرستی کرتا آیا ہے۔ آج بھی یہاں درجنوں ایسی شخصیات موجود ہیں جو ادب کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔
حاجن نے ادب کے لیے ایوارڈ یافتہ اور نامور مصنفین پیدا کیے ہیں۔
’فرودسِ کشمیر‘ کا لقب حاصل کرنے والے عبدالواحب پرے کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔
عصر حاضر میں یہاں درجنوں ایسے شاعر ہیں جو ادبی روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
موجودہ دور کے نامور شاعر ساگر سرفراز کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔
وہ کشمیر کے ادبی حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور اپنی شاعری میں کشمیر کے حالات اور مسائل کا برملا اظہار کرتے ہیں۔
آنگُن ویران خالی کَمرن سُور ڈَولَان،
گردِ خئمژ المیآر کِتابن سُور ڈولَان
ساگر سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ہر ایک علاقے یا معاشرے کی اپنی پہچان ہوتی ہے۔
حاجن کو شعر و ادب کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ’یہاں بڑے بڑے مفکروں، شاعروں اور دانش وروں نے جنم لیا۔ یہ وہی سر زمین ہے جہاں عالمی شہرت یافتہ شاعر و مصنف پروفیسر محی الدین حاجنی صاحب کا جنم ہوا۔‘
ساگر کے مطابق پروفیسر محی الدین نے کشمیری زبان اور ادب کو گھر گھر پہچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ساگر کے بقول شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک ہنر ہے جسے کھوجنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
’شاعر کو اللہ تعالی نے ایک عجیب چیز بخشی ہے اور وہ اپنی بات شعر کے ذریعے کرتا ہے۔‘
مجید مجازی شاعری میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شاعری و ادب کے اعتبار سے حاجن کافی ذرخیز زمین ہے۔
’اس دھرتی نے بڑے بڑے شاعر و قلم کار پیدا کیے۔ کشمیر کے سب سے بڑے مذہبی شاعر مولوی صدیق اللہ حاجنی کا تعلق اسی علاقے سے ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول حاجن جموں و کشمیر کا واحد علاقہ ہے جہاں سات ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ شخصیات ہیں۔
نامور کشمیری مورخ، محقق، نقاد اور مصنف محمد یوسف ٹینگ نے اپنی کتاب میں لکھا کہ حاجن کشمیر کا بدایوں ہے۔
’جس طرح انڈیا میں علم و ادب کے حوالے سے بدایوں کو کافی اہمیت حاصل ہے اسی طرح کشمیر کو وہی اہمیت حاصل ہے۔
’یہاں ہر شخص کی بول چال میں شاعری نظر آتی ہے۔ ان کی زبان اتنی میٹھی ہوتی ہے کہ آپ کو لگے گا کہ میں شاعری سُن رہا ہوں۔‘
ساگر سرفراز نے بتایا کہ عصر حاضر میں بہت ساری تنظیمیں کام کر رہی ہیں، جن میں حلقہ ادب سوناواری اور وہاب کلچرل اکیڈمی قابل ذکر ہیں۔
’حلقہ ادب سوناواری کشمیر کی پہلی ادبی انجمن ہے۔ ہر برس مارچ میں حلقہ ادب سوناواری کی ممبر شپ ڈرائیو ہوتی ہے جس کے ذریعے خواہش مند لوگ اس انجمن کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں۔‘
(ایڈیٹنگ: بلال مظہر)