’آپ سے ملتمس ہوں کہ اصلی غزل لکھیں، یہ وہ صنف ہے جس کو کئی امریکی شاعر، جو اس میں طبع آزمائی کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، صریحاً سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ادبی اصناف سے وجدانی طور پر واقف ہونے کے ناطے آپ اس صنف کو سمجھانے کی ایک چھوٹی سی کوشش میں میری مدد کر سکتی ہیں۔
’آپ بمہربانی میری مجوزہ انتھولوجی کے لیے کم از کم ایک غزل لکھیں۔ مشمولہ مضمون، جو پوئٹری پائلٹ میں شائع ہو چکا ہے، میں درکار چیزوں کی وضاحت کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ایک سپلیمنٹ شیٹ بھی ہے۔
’مجھے نہیں لگتا کہ اس تیسری دنیا کی صنف کے لیے مدد فراہم کرنا آپ کے لیے کسی بھی صورت میں گھاٹے کا سودا ہے۔ آخر گوئٹے (جرمن شاعر) نے بھی تو اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ کچھ نہیں صحیح مگر آپ کو کچھ مزہ آئے گا۔ امید کرتا ہوں کہ میں نے کوئی گستاخی نہیں کی۔‘
’میں کون ہوں؟ میں کشمیر سے تعلق رکھنے والا انگریزی زبان کا شاعر ہوں جو اس ملک میں گذشتہ دو دہائیوں سے رہائش پذیر ہے، جس کو میں ثقافتی لحاظ سے غلط سمجھتا ہوں اور اس کو درست کرنے کا منتظر ہوں۔‘
یہ اُس خط کا متن ہے جو انگریزی زبان کے کشمیری نژاد امریکی شاعر آغا شاہد علی نے 11 ستمبر 1996 کو پلٹزر پرائز انعام یافتہ امریکی خاتون شاعرہ کیرولین کیزر کو لکھا۔
وہ تب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی یونیورسٹی آف میساچوسٹس ایمہرسٹ میں ایم ایف اے پروگرام برائے کریٹو رائٹنگ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات تھے۔
اصل میں آغا شاہد علی انگریزی زبان بالخصوص امریکی شعرا کی طرف سے انگریزی میں غزل کے نام پر لکھی جانے والی شاعری سے خوش نہیں تھے اور انہیں اصلی غزلیں لکھنا سکھانا چاہتے تھے۔
آغا شاہد نے اُس وقت کے بیشتر امریکی شعرا کو ایک خط مع ایک مضمون ارسال کیا۔ خط میں امریکی شعرا سے استدعا کی کہ وہ ان (آغا شاہد علی) کی طرف سے مرتب کی جانے والی ایک انتھولوجی کے لیے اپنی ایک یا ایک سے زیادہ غزلیں بھیجیں جبکہ مضمون میں یہ تفصیل سے سمجھایا کہ ایک اصلی غزل کیسے لکھی جاتی ہے۔
107 شعرا کی غزلوں پر مشتمل ان کی یہ انتھولوجی ’ریویشنگ ڈسیونٹیز: ریئل غزلز ان انگلش‘ کے نام سے سنہ 2000 میں شائع ہوئی، جس میں امریکہ کے بعض نامور شعرا جیسے ڈبلیو ایس میرون، ولیم میتھیوز، ڈیان ایکرمین، ایلن برائنٹ ووئگٹ اور جان ہولینڈر کی غزلیں بھی شامل ہیں۔
انگریزی غزل کے معمار
کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی کے سابق سربراہ اور معروف نقاد پروفیسر جی آر ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’آغا شاہد علی انگریزی غزل کی صنف کے معمار ہیں۔‘
’یہ آغا شاہد علی ہی ہیں جنہوں نے انگریزی میں غزل کو بطور صنف اور فن مقبول کیا۔ آئرش شاعر تھامس مور نے بھی 19 ویں صدی میں انگریزی میں کچھ شاعرانہ تحریریں لکھیں جن کا نام انہوں نے غزل رکھا، لیکن ان کی یہ تحریریں غزل کی صنف کے تقاضوں کے عین مطابق نہیں ہیں۔‘
’سپرٹ کے لحاظ سے تھامس مور کی شاعرانہ تحریریں بلاشبہ غزلیں ہیں کیوں کہ ان میں شمع و پروانہ، عاشق و معشوق اور محب و محبوب کی باتیں ہیں۔ لیکن وہ اس صنف کے فنی تقاضوں کے اعتبار سے غزلیں نہیں ہیں۔ آغا شاہد علی نے امریکہ میں جو غزلیں لکھیں وہ نہ صرف سپرٹ بلکہ صنف کے لحاظ سے بھی فارسی اور اردو کی غزلوں سے ہم آہنگ ہیں۔‘
پروفیسر جی آر ملک کہتے ہیں کہ ’ریویشنگ ڈسیونٹیز: ریئل غزلز ان انگلش‘ آغا شاہد علی کی ایک ایسی پہل تھی جس کا مقصد نہ صرف انگریزی زبان کے شاعروں کو غزلیں لکھنا سکھانا تھا بلکہ مستقبل کے شاعروں کے لیے نمونہ عمل بھی چھوڑنا تھا۔‘
’انگریزی زبان کے شاعروں نے آغا شاہد کی سرپرستی میں ان کی انتھولوجی کے لیے جو غزلیں لکھیں وہ فنی اعتبار سے فارسی اور اردو کی طرح ہی ہیں۔‘
عاشق حسین پرے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں مرزا غالب کی شاعری پر اپنا پی ایچ ڈی مقالہ لکھ رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جب مارکسی فلاسفر اور ادبی نظریہ نگار اعجاز احمد نے مرزا غالب کی غزلوں کا امریکی شعرا سے ترجمہ کرایا تو آغا شاہد علی کو اس پروجیکٹ کے تحت سامنے آنے والی کتاب ’غزلز آف غالب‘ دیکھ کر بہت غصہ آیا تھا۔‘
’آغا شاہد علی کا ماننا تھا کہ یہ کتاب (غزلز آف غالب) غزل کی صنف اور اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہے۔
’دراصل اعجاز احمد نے چند معروف امریکی شعرا کو بلا کر ان کے سامنے مرزا غالب کی کچھ غزلوں کی لفظی تشریح اور خلاصہ پیش کیا تھا۔ اُن کو آزادی دی تھی کہ آپ اپنی سمجھ کے حساب سے ترجمہ کر سکتے ہیں۔
’ان امریکی شعرا کے ذہن میں جو کچھ آیا انہوں نے لکھ دیا۔ وہ غالب کے اصل متن و مفہوم کے تئیں وفادار اور پابند نہ رہے۔ غزل کا ایک شعر دو مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن ان لوگوں نے بعض شعروں کو چار تا پانچ مصرعوں میں توڑ کر پیش کیا۔ یہی نہیں بلکہ کئی دیگر غلطیاں بھی کیں۔‘
عاشق حسین پرے کہتے ہیں کہ ’آغا شاہد علی وہ شاعر ہیں جنہوں نے پہلی بار غزل کو بحیثیت صنف انگریزی زبان میں لکھا۔‘
عاشق حسین پرے کا کہنا ہے کہ ’غالباً اعجاز احمد کی کتاب ’غزلز آف غالب‘ اور امریکی شعرا کی طرف سے غزل کے نام پر کچھ بھی لکھنے کے ابھرتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر ہی آغا شاہد علی نے انگریزی زبان کے شعرا کو ’اصلی غزل‘ لکھنا سکھانے کی پہل شروع کی تھی۔‘
’حالاں کہ کئی لوگوں نے ان سے پہلے انگریزی میں غزل لکھنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن وہ غزل کے نام پر کچھ بھی لکھ رہے تھے۔
’غزل لکھنے کے اپنے کچھ اصول ہیں۔ بحر، ردیف اور قافیہ جیسی تکنیکوں کا استعمال ہوتا ہے۔ غزل کا ہر ایک شعر آزاد ہوتا ہے۔ جب کہ ایک شعر کا دوسرے شعر سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے۔ ہر شعر آنٹولوجیکلی ایک مستحکم اکائی ہوتا ہے اور اس کا اپنا مطلب ہوتا ہے۔
’جو شاعر انگریزی میں غزل لکھنے کا دعویٰ کرتے تھے وہ دراصل غزل کو نظم بنا رہے تھے۔ حالاں کہ غزل اور نظم دو مختلف صنفیں ہیں۔ وہ بحر، ردیف اور قافیہ کا لحاظ رکھے بغیر غزلیں لکھتے تھے۔
’جب آغا شاہد نے ان کی غزلوں اور اعجاز احمد کی کتاب کا مشاہدہ کیا تو وہ بہت اداس ہوئے۔ انہیں لگا کہ جنوبی ایشیا بالخصوص بھارت اور پاکستان کی تہذیب کا حصہ بن چکی غزل کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے بعد آغا شاہد علی نے غزل کو بحثیت صنف انگریزی میں متعارف کرنے کی عملی کوششیں شروع کر دیں۔ انگریزی زبان کے شعرا بالخصوص امریکی شعرا کو غزل لکھنے کے لیے مدعو کیا۔ ’ریویشنگ ڈسیونٹیز: ریئل غزلز ان انگلش‘ ان کی کوششوں کی کامیابی کا ایک ثبوت ہے۔
’اپنی ان کوششوں کی وجہ سے آغا شاہد علی انگریزی میں غزلیں لکھنے کے رجحان ساز بن گئے۔ اس کے بعد آغا شاہد علی کو جن شاعروں نے زیادہ فالو کیا وہ امریکی شعرا تھے۔ آج بھی پوری دنیا میں شعرا انہیں فالو کرتے ہیں۔‘
انگریزی زبان کے نوجوان کشمیری شاعر وانی نذیر کہتے ہیں کہ ’انگریزی غزلوں پر مشتمل کتاب ’ریویشنگ ڈسیونٹیز: ریئل غزلز ان انگلش‘ ایک ایسا مجموعہ کلام ہے جس نے امریکہ میں انگریزی غزل کے آغاز کی داغ بیل ڈال دی۔‘
’آغا شاہد علی کی کوششیں اور ان کی یہ کتاب امریکہ میں انگریزی غزل کے پنپنے اور عام ہونے کی وجہ بنی۔ اس کتاب کے کنٹریبیوٹرز نے اپنے پیچھے غزلوں کے کچھ بہترین نمونے چھوڑے ہیں۔‘
آغا شاہد علی نے روایت بدلی
ڈاکٹر مدثر احمد غوری حیدرآباد دکن میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں انگریزی زبان کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر تعینات ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات چیت میں کہا کہ ’آغا شاہد علی نے غزل کو انگریزی میں بطور صنف متعارف کرنے کے علاوہ غزلوں سے منسوب روایت کہ ان میں صرف خواتین اور رومانس کے متعلق باتیں ہوتی ہیں، کو بدل دیا ہے۔‘
’پہلے کی اکثر غزلیں خواتین، رومانس اور شہوانی جیسے موضوعات پر لکھی جاتی تھیں۔ تاہم آغا شاہد علی نے اس روایت سے ہٹ کر مختلف عنوانات پر غزلیں لکھیں۔ انہوں نے قومیت، حب الوطنی، جلاوطنی، بغاوت اور ناسٹلجیا (پرانی باتیں) جیسے موضوعات پر غزلیں لکھیں۔
’اسی طرح غزلیں ایک مخصوص مونو رائم کی شکل میں لکھی جاتی تھیں جہاں اشعار یکساں لمبائی کے ہوا کرتے تھے۔ میٹر اور ساؤنڈ بھی یکساں ہوتا تھا۔ لیکن یہ آغا شاہد ہیں جنہوں نے غزلوں کی ساخت میں بھی تبدیلی لائی۔‘
وانی نذیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنی گفتگو میں کہا کہ ’آغا شاہد علی نے غزل کو امریکن یا انگلش سانچے میں ڈھالنے کے لیے اس میں لچک پیدا کی۔‘
’آغا شاہد نے اپنی انتھولوجی (ریویشنگ ڈسیونٹیز: ریئل غزلز ان انگلش) کے ابتدائیہ میں کچھ یوں لکھا ہے: ایک بے قافیہ غزل اردو اور فارسی بولنے والوں کے لیے لائق رد کیوں بنے۔ میں اپنی کچھ غزلیں پیش کروں گا۔ یہ اعتراف کا وقت ہے۔ جب میں نے اپنی پہلی غزل لکھی میں نے قافیہ ترک کرتے ہوئے صرف ردیف پر اکتفا کیا۔
’اگر آغا شاہد علی نے انگریزی غزل میں یہ لچک پیدا نہیں کی ہوتی تو شاید اس صنف کو مقبولیت حاصل نہیں ہو پاتی۔ انہوں نے غزل کی صنف کی ترقی کو اپنے ذمے لیا تھا۔ اس لحاظ سے وہ خصوصی ستائس کے مستحق ہیں۔
’آج کل دنیا میں جہاں کہیں بھی انگریزی غزلیں لکھی جاتی ہیں وہ آغا شاہد کی غزلوں کو ہی فالو کرتے ہیں۔ میں بھی انہیں ہی فالو کرتا ہوں۔‘
حذیفہ پنڈت انگریزی زبان کے ایک نوجوان کشمیری شاعر اور ایوارڈ یافتہ کتاب ’گرین از دا کلر آف میموری‘ کے مصنف ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سنہ 2010 تک کشمیر کے متعلق انگریزی میں بہت کم شاعری کی گئی تھی اور یہاں کی جانے والی شاعری پر تحقیق بھی بہت کم ہوئی تھی۔ لہٰذا اگر ہمارے پاس کچھ تھا تو وہ آغا شاہد علی کی شاعری تھی۔ لوگ آج بھی ان کے بارے میں لکھتے ہیں، ان کی شاعری کا حوالہ دیتے ہیں اور ان سے پیار کرتے ہیں۔‘
’آغا شاہد ایک شاندار اور لاجواب شاعر تھے۔ انہوں نے بہت خوبصورت شاعری لکھی ہے۔ اُن کی کتاب ’دا کنٹری ود آوٹ اے پوسٹ آفس‘ ایک بہترین کتاب ہے۔ لیکن یہ کتاب شاہد کے اپنے نظریہ کشمیر کی ترجمانی کرتی ہے۔‘