کراچی میں وفاقی حکومت کے پارلیمانی لاجز میں لگا برگد کا درخت، جو تیز بارشوں کی وجہ سے گر گیا تھا، کو محکمہ جنگلات کی ٹیم نے کامیابی سے دوسری جگہ منتقل کر دیا ہے۔
صوبائی محکمہ جنگلات کے مطابق یہ برگد تقریباً ڈیڑھ صدی پہلے برطانوی دور حکومت میں لگایا تھا، جس کو دیمک نے شدید نقصان پہنچایا اور کراچی میں حالیہ بارشوں اور تیز ہواؤں کے باعث گر گیا۔
گرا ہوا برگد کا درخت قصر ناز ہی کے احاطے میں لگایا گیا ہے۔
برگد کے درخت گرنے کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد وزیر اعلی سندھ سید مراد عل شاہ نے نوٹس لیتے ہوئے محکمہ جنگلات کو درخت کو بحال کرنے کی ہدایت کی تھی۔
درخت کی بحالی کرنے والی ٹیم کے سربراہ جاوید احمد مہر نے کہا کہ ’کراچی میں کچھ عرصے سے یہ روایت بن گئی کہ گرے ہوئے درخت کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا جاتا ہے۔ جو مناسب نہیں ہے۔ گرے ہوئے درخت کو دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔
جاوید احمد مہر نے عوام الناس سے اپیل کی کہ اگر کہیں درخت گر جائے تو اس کو کاٹنے کے بجائے دوبارہ لگایا جائے اور اس مقصد کے لیے محکمہ جنگلات اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔
بقول جاوید احمد مہر: ’برگد کے درخت کو ’ٹری آف لائف‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور دوبارہ بحالی کے بعد مزید ایک صدی تک زندہ رہ سکتا ہے۔‘
تقریباً 30 فٹ اونچا برگد کے مذکورہ درخت کی تصویر قصر ناز کے ملازمین کی وردیوں پر بھی مونوگرام کے طور بنائی گئی ہے
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قصر ناز کے ملازم نثار احمد اعوان نے بتایا کہ قصر ناز میں لگے دفرخت کی طرح کا دوسرا پودا میٹروپول ہوٹل کے قریب واقع سروسز میس میں لگایا گیا تھا۔
پیپل، نیم، ببول کی طرح برگد بھی سندھ کا مقامی درخت ہے اور صوبائی دارالحکومت میں ماضی میں نیم کے ساتھ برگد کے درخت بڑی تعداد میں نظر آتے تھے۔
لیکن شہر کی بڑھتی آبادی اور تعمیراتی تعمیراتی کاموں کی وجہ سے بڑی تعداد میں درختوں کو خاتا گیا ہے۔
ماحولیاتی کارکنوں کی اپیل پر میئر کراچی مرتضی وہاب نے کچھ عرصہ قبل کلفٹن اور امیر خسرو روڈ پر واقع بڑی تعداد میں برگد کے درختوں کو ’سبز محفوظ ثقافتی ورثہ‘ قرار دیا تھا اور ان کے کاٹنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ تاہم اب بھی ان درختوں کے کاٹنے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔