برطانیہ کو پارلیمنٹ معطلی کی بھاری قیمت چکانا ہو گی: تجزیہ کار

وزیراعظم بورس جانسن ایک بار پھر برطانوی کاروباری ساکھ کے سینے میں خنجر کی طرح اتر گئے ہیں۔

اس وقت بورس جانسن کی قیادت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے نمایاں اثرات ملازمتوں اور خوشحالی پر پڑیں گے خاص طورپر ایسے علاقوں میں جہاں پہلے ہی ملازمت ملنا مشکل ہے۔(اے ایف پی)

کسی دھوکے میں نہ رہیں کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور ڈیموکریٹ یونینسٹ ارکان کے سہارے کھڑی اقلیتی کنزرویٹو حکومت کو اس شرمناک رویئے کی قیمت ادا نہیں کرنی پڑے گی۔  لیکن بہرحال ہمیشہ کی طرح یہ ایک ایسی حکومت ہے جسے بورس جانسن اور ان کے کروڑ پتی کابینہ ارکان کہیں آسانی کے ساتھ بچا جانے کی اور بعد میں کسی بھی قسم کے نتائج سے بری الذمہ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

(واضح رہے کل شب برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے برطانوی پارلیمنٹ معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ملکہ برطانیہ کی جانب سے بھی بدھ ہی کو وزیر اعظم بورس جانسن کے اس منصوبے کی منظوری دی جا چکی ہے۔ غالب امکانات کے مطابق دس ستمبر کو پارلیمان کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا جائے گا اور 14 اکتوبر تک دوبارہ نہیں بلایا جا سکے گا۔)

وزیراعظم کی پارلیمنٹ کو معطل کرنے کی کوشش، ان کی بریگزٹ بغاوت، ان سب چیزوں کے ناگزیر نتائج پاؤنڈ کی قیمت میں تیزی سے کمی کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ اگر پاؤنڈ کی قیمت برقرار بھی رہی تو اس سے برآمدات کی قیمت میں اضافے کا عمل متاثرہوگا۔  

برطانوی سٹاک مارکیٹ کے 100 انڈیکس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تاہم یہ انڈیکس بین الاقوامی کمپنیوں پر مشتمل ہے جو ڈالر میں رقوم اکٹھی کرتی ہیں۔ سٹاک مارکیٹ کا دوسرا انڈیکس 250 ہے جس کے تحت ہونے والی زیادہ تر کاروباری سرگرمیوں کی بنیاد برطانیہ کے اندر ہے اور پاؤنڈ سٹرلنگ میں لین دین کیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس انڈیکس میں 165 پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے۔

کاروباری سرگرمیوں میں فوری نوعیت کا اتارچڑھاؤ طویل مدت کی کساد بازاری کے مقابلے میں معمولی چیز ہے۔ وزیراعظم بورس جانسن ایک بار پھر برطانوی کاروباری ساکھ کے سینے میں خنجر کی طرح اتر گئے ہیں۔ برطانیہ کو ایک پائیدار معیشت اور مستقل مزاج قسم کا ملک تصور کیا جاتا تھا جہاں سرمایہ کاروں کو اعتماد ملتا ہے۔

وزیراعظم بورس جانسن تو ایک معقول پینشن کے ساتھ ریٹائر ہو جائیں گے لیکن ہمیں ان کے اقدامات کے اثرات برسوں بھگتنے پڑیں گے۔

اس وقت برطانیہ کو مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کی کمی، اشیا ضروریہ کے پیدواری مسئلے، سڑکوں پر زیادہ ٹریفک اور بعض اوقات کمزور ثابت ہونے والے بنیادی ڈھانچے سمیت بہت سے دوسرے مسائل کا سامنا ہے۔

لیکن اب بھی یہاں کاروبار کے لیے وضع کئے گئے قواعد و ضوابط واضح اور قابل فہم ہیں۔ ان کا اطلاق یکساں ہے اور قومیت کا امتیاز نہیں رکھا جاتا۔ کنزرویٹو رہنماؤں کی جانب سے کبھی کبھار سرخ فیتے پر تنقید ایک سچ پر پردہ ڈالتی ہے جو کبھی کبھار ہی بتایا جاتا ہے۔ برطانوی قواعد و ضوابط اور ادارے بڑی حد تک معقول اورمتناسب کردار کر رہے ہیں۔  سچ کہا جائے تو قواعد و ضوابط بعض معاملات میں کم اور کچھ میں زیادہ سخت ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس ملک کے اداروں کا استحکام سرمایہ کاروں کے لیے روشنی کا مینار رہا کرتا تھا۔ کنزرویٹو رہنماؤں کو بڑے عرصے  سے ان اعداد و شمار کی طرف اشارہ کرنا پسند ہے جن سے اداروں کا استحکام ظاہر ہوتا ہے۔ انہیں اس کا سہرا اپنے سر باندھنا اچھا لگتا ہے جس کے وہ واقعی مستحق نہیں ہیں۔ لیکن اب یہ اعداد و شمار موجودہ حکومت کے حق میں زیادہ موافق نہیں رہے۔

حقیقت میں حکومت کے اپنے جاری کردہ اعداد و شمارسے ظاہرہوتا ہے کہ غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ وزرا ان اعداد و شمار کو گھماتے پھرانے تک محدود ہو چکے ہیں۔ وہ ایسے الفاظ کا سہارا لینے پر مجبور ہیں یعنی لیکن، لیکن، لیکن دیکھیں ہم نے اس سے زیادہ غیرملکی سرمایہ کاری حاصل کی ہے(یہاں کسی بھی ملک کا نام شامل کرلیں)۔ ان باتوں سے پوشیدہ لیکن ٹھوس حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔

سرمایہ کار کمپنیاں سرمایہ لگاتے وقت جس بات پر زیادہ توجہ دیتی ہیں وہ سیاسی خطرہ ہے۔ آپ جتنی چاہیں مراعات کی پیشکش کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر بظاہر مفت بندرگاہیں یا کچھ بھی اور، لیکن اگر کمپنیاں ایسا محسوس کریں کہ معمول کے کسی موقعے پر ان کے پیروں تلے سے زمین کھینچی جا رہی ہے یا انہیں خوف ہو کہ ان کی سرگرمیاں تواتر کے ساتھ سامنے آنے والے بحرانوں کے سبب خطرے سے دو چار ہو جائیں گی تو وہ سب کمپنیاں اور کاروباری ادارے اپنا راستہ بدل لیں گے اور ایسا برطانیہ میں نہیں ہوا کرتا تھا۔

لیبر پارٹی کے رہنما جیریمی کوربن کے معاملے میں جن خدشات کا بھی اظہار کیا جائے اگر ان کی حکومت ہوتی تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ لیبرپارٹی کا پروگرام خطرات سے خالی نہیں ہے لیکن یہ یورپی معیارات کے اعتبار سے خاصہ متناسب ہے۔

اس وقت بورس جانسن کی قیادت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے نمایاں اثرات ملازمتوں اور خوشحالی پر پڑیں گے خاص طورپر ایسے علاقوں میں جہاں پہلے ہی ملازمت ملنا مشکل ہے۔

بہت سے کالم نگاراس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بورس جانسن کو اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہیئے یا انہیں اس جانب سوچنے کی ضرورت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی باتیں بنیادی نکتے سے خالی ہیں۔ موجودہ صورت حال نے واضح کر دیا ہے کہ بورس جانسن کی دلچسپی صرف خام افرادی قوت اور اس میں اپنی حکومت قائم رکھنے تک محدود ہے۔ ہمیں بتایا تھا کہ سابق وزیر اعظم ٹریزامے میں کمزور قسم کا احساس ذمہ داری موجود تھا لیکن بورس جانسن میں تو وہ بھی بالکل نہیں ہے۔ اگر کسی ادارے نے ان کے راستے میں آنے کی دھمکی دی تو اس کی قربانی دے دی جائے گی۔ اس میں ان اداروں کو آسانی سے شامل کیا جا سکتا ہے جن پر آجروں کو اعتماد ہے۔

یہ نکتہ بورس جانسن کے ساتھ کام کرنے والوں پر واضح کرنا چاہیئے۔ کم ازکم وزیراعظم کے ان کے ساتھیوں پر جن کی سیاست ایسی  ہے جو کبھی دائیں بازو کے مرکزی دھارے کے طور جانی جاتی تھی اور یہ لوگ ابھی تک انتہائی نظریات رکھنے والی قوم پرست سیاست میں داخل نہیں ہوئے۔

وزیراعظم بورس جانسن ان تمام شعبوں کے لیے خطرہ ہیں جن کے بارے میں دائیں بازو کے سیاستدان کہا کرتے تھے کہ وہ ان پر توجہ دیتے ہیں۔ ان شعبوں میں اتحاد، برطانوی ادارے، پارلیمنٹ، آزادمعیشت، سرمایہ داری اور قانون کی عمل داری شامل ہیں۔

سابق برطانوی وزیر خزانہ فلپ ہموند وہ شخص ہیں جو اس نکتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ان کے ساتھ بھی ایسے افراد مناسب تعداد میں موجود ہیں جو یہ نکتہ جانتے ہیں؟

ظاہر ہے کہ بات صرف اتنی نہیں کہ ہم بورس جانسن اور ان کے ساتھیوں کے رویئے کے نتائج کی معاشی قیمت ادا کریں گے، بلکہ جو معاشی قیمت ہم ادا کریں گے وہ غیرمعمولی طور پر بہت زیادہ ہو گی۔ مارکیٹ میں کاروباری برادری نے کل جس رد عمل کا اظہار کیا وہ محض ابتدا ہے۔  

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ