’جیت یا ڈیل‘:نوازشریف کی واپسی پرسیاسی جماعتیں کیا کہتی ہیں؟

مسلم لیگ ن کے رہنما اور حامی جہاں اپنے قائد نواز شریف کی واپسی کو ’قانونی و سیاسی جیت‘ قرار دے رہے ہیں، وہیں دوسری جانب کچھ مبصرین ان کی وطن واپسی کو کسی ’ڈیل کا نتیجہ‘ بتا رہے ہیں۔ 

سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف 11 مئی 2022 کو ویسٹ لندن میں ایک مقام سے روانہ ہو رہے ہیں (اے ایف پی/ ڈینیل لیل)

سال 2019 میں قید کی سزا کے دوران طبی بنیادوں پر اجازت ملنے پر برطانیہ روانہ ہونے اور وہاں چار سال قیام کرنے کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف ہفتے کو پاکستان واپس پہنچ رہے ہیں۔ ان کی واپسی کے تناظر میں دیگر سیاسی جماعتوں کے مختلف بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ 

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کی ہے جبکہ احتساب عدالت نے ان کے وارنٹ معطل کرتے ہوئے وطن واپسی پر انہیں گرفتار کرنے سے بھی روکا ہے۔ 

یہ فیصلے جمعرات (19 اکتوبر) کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس کیس اور احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں دیے، جس کے بعد سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما کی پاکستان واپسی کے لیے ’راہ ہموار‘ ہوتی نظر آ رہی ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اور حامی جہاں ان کی واپسی کو قانونی و سیاسی جیت قرار دے رہے ہیں، وہیں دوسری جانب کچھ مبصرین ان کی وطن واپسی کو کسی ’ڈیل کا نتیجہ‘ بتا رہے ہیں۔ 

اس سے قبل یہ بحث بھی جاری رہی کہ نواز شریف کے خلاف کیسز اتنے مضبوط ہیں کہ اب انہیں عدالتوں سے ریلیف نہیں مل سکے گا بلکہ وہ جب بھی وطن واپس آئے تو انہیں جیل جانا ہوگا، تاہم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے اقتدار میں رہنے کے بعد یہ چہ مگوئیاں بھی دم توڑ گئیں، جب گذشتہ ماہ ان کی وطن واپسی کا اعلان کیا گیا۔ 

گذشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے سابق وزیراعظم کی واپسی کو بیانیے میں تبدیلی اور بظاہر معاہدہ ہو جانے کے مترداف قرار دیا ہے۔ 

نواز شریف کی واپسی کو ’سمجھوتے کے طور پر دیکھنے‘ کے سوال پر پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا: ’بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ وہ کسی ڈیل کے تحت آ رہے ہیں۔‘

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ جب شرجیل میمن کو راہداری ضمانت ملی اور وہ دبئی سے واپس آئے تو انہیں جہاز کے اندر سے گرفتار کیا گیا، یہ نواز شریف کا دور حکومت تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’اس ملک میں ہر تین سال کے بعد کوئی محب وطن، تو کوئی غدار بنتا ہے۔ 90 روز میں انتخابات کا اعلان ہونا چاہیے تھا۔ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے تو انتخابات ہوں گے۔‘

ترجمان پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی 65 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ دو کروڑ افراد میں اضافہ ہوا ہے۔ عوام اب سلیکشن کو قبول نہیں کریں گے۔

اتحادی رہنے کے بعد اب پی پی پی کے اختلافات سامنے آنے سے متعلق سوال پر فیصل کریم کنڈی نے مسلم لیگ ن کا نام لیے بغیر کہا: ’ہم نے پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے پر کہا کہ انہیں سیلیکٹ کیا گیا اور وہ بیساکھیوں سے آئے۔ آپ اب اگر آ رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہ بیانیہ چھوڑ دیا گیا، جس کی پہلے بات کی جا رہی تھی۔‘

اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے بلوچ نیشنل پارٹی (باپ) مینگل کے رہنما سردار اختر مینگل سے ان کا موقف لینے کے لیے بھی رابطہ کیا تاہم اس رپورٹ کی اشاعت تک ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔

پاکستان تحریک انصاف سے منسلک سینیٹر ہمایوں مہمند نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نواز شریف کی آمد سے قبل ان کی جماعت نے وکیل کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی، نیب ہی ان کی نمائندگی کر رہا ہے۔ سرینڈر عدالت کو نہیں پولیس کو کیا جاتا ہے۔‘

سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ڈیڑھ سال قبل مریم نواز شریف نے بیان دیا تھا کہ ان کے والد گارنٹی کے بغیر واپس نہیں آئیں گے۔ ’یہ ظلم ہے کہ ایک سزا یافتہ فرد کو ضمانت دی گئی ہے بلکہ جلسہ کروایا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کو جلسے تک کی اجازت نہیں دی جاتی۔‘

انہوں نے سوال کیا: ’مسلم لیگ ن کے رہنما کہتے ہیں کہ یہ طے ہو چکا ہے کہ عدلیہ انہیں ضمانت دے گی۔ انہیں یہ سب کیسے معلوم ہے؟‘

اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام ف (جے یو آئی) کا موقف بھی پاکستان تحریک انصاف سے کچھ مختلف نظر نہیں آ رہا، حالانکہ جے یو آئی مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعتوں میں سے ایک بڑی جماعت تھی۔

جے یو آئی کی رہنما شاہدہ اختر علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ یہ المیہ ہے کہ جب نواز شریف کے خلاف کیسز کھلنے پر آئے تو جماعت کے دیگر رہنماؤں کے بھی کیسز سامنے آ گئے۔

’آج عمران خان کا بھی یہی حال ہے کہ جب انہیں ریلیف دینے پر آتے ہیں تو نو کیسز میں ضمانتیں ملتی ہیں اور جب ریلیف نہیں دینا ہوتا تو صورت حال تبدیل ہو جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اگر شخصی بنیادوں پر فیصلے ہوں گے تو ادارے کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔ پارلیمان میں نظریہ ضرورت کے تحت قوانین کو بدلا گیا جو کسی بھی جماعت کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ ’تاریخ گواہ ہے کہ جو مقصود ہوں انہیں وقت کے ساتھ ریلیف دیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا: ’ہمارے سیاسی و عدالتی فیصلے نظریہ ضرورت کے تحت بدلتے ہیں۔ اگر سب کے ساتھ ایک ہی قانون اور رویہ رکھا جاتا تو آج وہ صورت حال نہ ہوتی جو اس وقت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست