امریکہ، طالبان حتمی امن معاہدے کے قریب تر: زلمے خلیل زاد

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے’ تمام قیاس آرئیوں کے باوجود، ہمارے پاس فی الحال اعلان کرنے کو کچھ نہیں‘۔

ہم ایک ایسے معاہدے کی دہلیز پر ہیں جس سے  افغان باشندوں کے لیے ایک باوقار اور پائیدار امن کی خاطر ایک ساتھ مل بیٹھنے کے دروازے کھل جائیں گے: زلمے خلیل زاد  (اے ایف پی)

واشنگٹن کے افغانستان کے لیے خصوصی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے اتوار کو کہا ہے امریکہ اور طالبان حتمی امن معاہدے کے قریب تر پہنچ گئے ہیں، جس سے افغانستان میں 18 برسوں سے جاری جنگ ختم ہو جائے گی۔

خلیل زاد کا یہ بیان قطر کے درالحکومت دوحہ میں تازہ مذاکرات کے بعد سامنے آیا۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ان مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ افغانستان میں موجود اپنے 13 ہزار فوجیوں کی بڑی تعداد کم کر دے گا اور طالبان اس کے بدلے بدامنی کے شکار ملک میں سکیورٹی کی ضمانت دیں گے۔

زلمے خلیل زاد نے ٹویٹ کیا: ’ہم ایک ایسے معاہدے کی دہلیز پر ہیں جس سے تشدد میں کمی آئے گی اور افغان باشندوں کے لیے ایک باوقار اور پائیدار امن کی خاطر ایک ساتھ مل بیٹھنے کے دروازے کھل جائیں گے۔‘

زلمے خلیل زاد نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان کے پاس افغان حکام کو دینے کے لیے معاہدے کا کوئی حتمی مسودہ موجود ہے کہ نہیں۔ تاہم، حکام نے حالیہ دنوں میں عندیہ دیا تھا کہ مذاکرات کا کابل منتقل ہونا مثبت نتیجہ حاصل ہونے کا اشارہ ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ’ قیاس آرئیوں کے باوجود، ہمارے پاس فی الحال اعلان کرنے کو کچھ نہیں‘۔ انہوں نے بتایا زلمے خلیل زاد کابل میں حکومتی رہنماؤں سمیت متعدد افغان شخصیات سے مشاورت کریں گے۔

خلیل زاد نے مزید کہا وہ مذاکرات کے تازہ دور کے آٹھویں اور آخری دن کی بات چیت کے بعد ’مشاورت کے لیے‘ آج (اتوار) ہی کابل جا رہے ہیں۔

11 ستمبر 2001 کو القاعدہ حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجا گیا تھا جنہیں سابقہ ​​طالبان حکومت نے پناہ دی تھی۔

18 سال کی بے نتیجہ اور امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے بعد واشنگٹن اب افغانستان سے فوجی انخلا چاہتا ہے اور اس کے مذاکرات کار کم از کم 2018 سے طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس سے قبل امید ظاہر کی تھی کہ ستمبر کے آخر میں ہونے والے افغان انتخابات سے قبل یکم ستمبر تک طالبان سے معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی صدر 2020 کے صدارتی انتخابات سے پہلے اس مسٔلے کو ہر صورت حل کرنا چاہتے ہیں۔

دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ایک روز قبل یعنی سنیچر کو کہا تھا امریکہ کے ساتھ معاہدہ ’حتمی شکل دینے کے قریب ہے‘ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا تھا اس کی تکمیل میں کیا رکاوٹیں باقی ہیں۔

یہ معاہدہ طالبان کی اس ضمانت کے بدلے میں امریکی فوج کے انخلا سے مشروط ہے جس کے تحت افغانستان کو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔

طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات اور بالآخر جنگ بندی اس معاہدے کے کلیدی ستون ہوں گے۔

خلیل زاد نے اتوار کو اپنی ٹویٹ میں مزید کہا ’اس طرح کے معاہدے سے ایک متحد اور خودمختار افغانستان کو فروغ دینے میں مدد ملے گی جو امریکہ، اس کے اتحادیوں یا کسی دوسرے ملک کے لیے خطرہ نہیں بنے گا۔‘

بات چیت کا آخری مرحلہ افغانیوں کے لیے حیرت انگیز رہا ہے، جن کو ان مذاکرات سے دور رکھا گیا جبکہ امریکی مذاکرات کاروں نے صدر اشرف غنی کی حکومت کو بڑی حد تک نظرانداز کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دی ہے۔

مذاکرات کے نویں دور کے دوران بھی طالبان کے حملے جاری ہیں اور ہفتہ کو افغان حکام نے شمالی شہر قندوز پر طالبان کے حملے کو پسپا کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا