حبِ نواز یا بغضِ عمران؟

اگر ریلیف کا یہ تازہ سلسلہ سسٹم کی طرف سے صرف اور صرف بغضِ عمران کی وجہ سے جاری ہے تو اس صورت میں نواز شریف کا سیاسی مستقبل نہایت سخت اور کھٹن راستوں پر مشتمل ہوگا۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف 21 اکتوبر 2023 کو لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں منعقدہ جلسے کے دوران اپنی بیٹی مریم نواز کے ساتھ  (عامر قریشی/ اے ایف پی)

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سسٹم کے ’نئے لاڈلے‘ کے طور پر ابھرے ہیں، لیکن یہاں پر سوال یہ بنتا ہے کہ یا تو نواز شریف کو نظام کی جانب سے ملنے والا یہ ریلیف سسٹم کا ’حبِ نواز‘ ہے یا ’بغضِ عمران‘؟

اس پر  یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اب نواز شریف کے لیے ریلیف کا جو سلسلہ چل پڑا ہے، کیا یہ سب نواز شریف کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تلافی کے لیے ہو رہا ہے؟ یعنی سسٹم کو نواز شریف کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا احساس ہوگیا ہے اور اب سسٹم ان کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کو درست کرنے کی کوشش میں ہے۔

یہ بات اگر درست ہے تو اس صورت میں نواز شریف کا سیاسی مستقبل مثبت نظر آتا ہے اور ان کے چوتھی دفعہ وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہے لیکن اگر ریلیف کا یہ تازہ سلسلہ سسٹم کی طرف سے صرف اور صرف بغضِ عمران کی وجہ سے جاری ہے تو اس صورت میں نواز شریف کا سیاسی مستقبل نہایت سخت اور کھٹن راستوں پر مشتمل ہوگا۔ ایسی صورت میں نواز شریف کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔

کیونکہ جس طرح ہم نے آج وقت کے پہیے کو گھومتے دیکھا ہے، اس میں کوئی پتہ نہیں کہ کب کیا ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں نامعلوم چار سال بعد  اقتدار کا یہ ’ہما‘  کس کے سر بیٹھ جائے اور جو آج جیل میں ہیں وہ کل دوبارہ اقتدار نشین ہو۔ آج جن کے لیے پھولوں کے سیج سجائے جا رہے ہیں، وہ کل کانٹوں سے بھر جائیں اور وہ بھی جیل میں ہوں یا پھر ملک بدر۔

پاکستانی سیاست میں ہلچل کوئی نئی بات نہیں۔ کبھی کوئی سیاست دان گرفتار ہو رہا ہے تو کبھی کسی کو معمول سے ہٹ کر ریلیف مل رہا ہے۔ کل جو اقتدار کے نشے میں چور ہو  کر اپنے سیاسی مخالفین پر قہر برپا تھے، وہ آج خود وقت کی موجوں کے زیر عتاب آئے ہوئے ہیں۔

کبھی جو جیل میں سیاسی انتقام کا نشانہ بن رہے تھے، وہ آج وکٹری کا نشان بنائے اپنے مخالفین کو چڑا رہے ہیں۔ غرض ہر چیز ایک دائرے میں سفر کرتی ہوئی واپس اپنے نقطہ آغاز پر پہنچ چکی ہے۔ اگر پاکستانی سیاست میں کچھ نہیں بدلا تو وہ ہے سیاست دانوں کا رویہ۔

ان حالات میں بھی قومی یکجہتی کے بجائے ہر ایک کو اپنے سیاسی و ذاتی مفاد عزیز ہیں۔ اب  وقت آگیا ہے کہ اس دائرے کے سفر کو محدود کردیا جائے لیکن اس کے لیے کسی بھی قوم کے پاس سیاسی بصیرت و استحکام لازمی ہے، جو فی الحال پاکستانی سیاست میں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔

پاکستان کے اس سیاسی دائرے پر اگر غور سے نظر دوڑائیں تو فی الحال دو کردار سب سے زیادہ واضح ہیں جبکہ باقی بھی حسبِ توفیق اپنا معاون کردار وقتاً فوقتاً ادا کرنے میں بھرپور کامیاب نظر آرہے ہیں۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں اس وقت سیاست کے مرکزی کردار بنے ہوئے میاں نواز شریف صاحب کی۔ میاں صاحب کم و بیش چار سال بعد لندن میں علاج کی غرض سے رہنے کے بعد نہ صرف پاکستان واپس آئے ہیں بلکہ سیاست میں بھی بھرپور انداز سے ایک بار پھر انٹری ماری ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ انہیں چوتھی بار ملک  کی باگ ڈور سنبھالنے کا اشارہ بھی واضح انداز میں مل چکا ہے، لیکن حالات اس قدر بھی آسان اور سادہ نہیں ہیں۔

نواز شریف خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھلے ہی ان کے لیے میدان خالی کیا جا رہا ہے اور ان کی واپسی کے لیے مقتدرہ قوتوں سے ’ہاں‘ بھی شاید مل چکی ہے لیکن تاحال ان کا چوتھی بار وزیراعظم کی شیروانی پہننا انتہائی پیچیدہ اور مشکل عمل ہے۔

آج کے پاکستان میں اور چار سال سے قبل کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وقت نواز شریف ایک مکمل الگ روپ میں تھے اور اب ان کی واپسی کے خطاب سے پتہ لگ چکا ہے کہ انہوں نے اپنے بیانیے میں بڑا کمپرومائز کیا ہے اور جن قوتوں کے خلاف وہ سڑکوں پر نکلے تھے، انہی کے سامنے بظاہر گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔

جس طرح سے ان کی واپسی پر انہیں ریلیف در ریلیف مل رہا ہے، جو کبھی ان کے سیاسی مخالف عمران خان کو ملتا تھا، جس پر مسلم لیگ ن عدلیہ پر جانبدار ہونے کی رَٹ لگائے رکھتی تھی، آج بھی وہی مسلم لیگ ن ہے اور وہی عدالتیں اور فیصلے بھی تقریباً وہی ہیں لیکن آج چونکہ بینفشری مسلم لیگ ن خود ہے تو عدلیہ پر تنقید کے بجائے لیگی کارکنان مٹھائیاں باٹنے میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں جبکہ کل جو لوگ مٹھائیاں بانٹ رہے تھے، وہ آج عدلیہ اور مقتدرہ قوتوں پر تنقید کرکے اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔

یعنی لوگ وہی ہیں صرف کردار بدل گئے ہیں، لیکن اس سارے عمل میں ایک چیز واضح ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ اور منتخب افراد کے لیے آئین و قانون کی تشریح الگ اور عام پاکستانی کے لیے الگ ہے۔

اب بھی اگر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور نواز شریف کو ملنے والی ریلیف پر تنقید کر رہی ہیں تو وہ بھی صرف اپنے مفادات  کے لیے ہے۔ ان سب کو غم صرف اس بات کا ہے کہ نواز شریف کو جو ریلیف مل رہی ہے یا ان کے لیے جو خصوصی اقدامات ہو رہے ہیں، وہ ہمیں کیوں نہیں مل رہی۔ عام آدمی کی فکر سیاست دان کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں۔

نواز شریف خیر سے واپس تو آگئے ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ جلد ہی کیسز سے چھٹکارا حاصل کرکے آئندہ انتخابات میں ایک بار پھر وزرات عظمیٰ کے امیدوار ہوں گے لیکن یہ عمل اتنا آسان نہیں۔

اگر انہیں عدالتوں سے کوئی ریلیف نہیں ملتا تو وہ کیا کریں گے؟ اسی طرح جب سے وہ واپس آئے ہیں، ان کی جانب سے جلسے کے بعد کوئی سیاسی سرگرمی یا بیان منظر عام پر نہیں آیا۔ ان کے سیاسی مخالفین سمیت اکثر حلقے ان سے بار بار الیکشن سے متعلق خاموشی پر سوال کر رہے ہیں؟

ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف باقی جماعتوں کی طرح الیکشن کمیشن پر انتخابات کی تاریخ دینے کے لیے دباؤ کیوں نہیں ڈال رہے۔ نواز شریف کی اس اہم موضوع پر خاموشی کئی سوالات پیدا کر رہی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ شاید مسلم لیگ ن تب تک الیکشن میں نہیں جانا چاہتی جب تک نواز شریف کو مکمل کلین چٹ نہیں ملتی اور وہ اس کے لیے الیکشن میں تاخیر کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔

دوسری طرف اس کہانی میں پہلے ہیرو کا  کردار نبھانے والے عمران خان ہیں، جو اب منفی کردار یعنی ولن بن چکے ہیں۔ ان کی پوزیشن میں 180 ڈگری کا موڑ آگیا ہے۔ عمران خان کے سیاسی کیریئر میں گذشتہ ڈیڑھ سال میں جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ بلاشبہ ان کی زندگی میں ہونے والے سب سے تلخ تجربات میں سے ایک ہیں، لیکن ان حالات کے ذمہ دار بھی شاید وہ خود ہیں۔

ابھی کچھ عرصہ قبل ہی وہ طاقت کے ایوانوں میں بیٹھ کر اپنے سیاسی مخالفین کی بے بسی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ آج وہ خود بے بسی کے عالم میں گاہے بگاہے لوگوں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب تک کی صورت حال کے مطابق حالات ان کے حق میں بالکل بھی نہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ بجائے صبر و تحمل اور برا وقت گزرنے کا انتظار کرنے کے جلد از جلد جیل جیسے عذاب سے نکلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ایک طرف وہ اپنے قریبی ساتھی اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے خائف ہیں تو دوسری طرف جس شخص کی کردار کشی کے لیے وہ ایک بھی لمحہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، آج اسی کی منتیں ترلے کرنے میں مصروف ہیں۔

اس سے ایک چیز واضح ہے کہ سیاست میں خاص طور پاکستانی سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں۔ کبھی صدر علوی کے ذریعے تو کبھی سیاسی مخالفین کے راستے، ایسے لگ رہا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اپنے لیے ریلیف کی غرض سے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں اور کسی طرح سے جان  خلاصی کے طلب گار ہیں۔

ایک طرف چیئرمین پی ٹی آئی ریلیف کے متلاشی ہیں تو دوسری طرف وہ اب بھی الزامات اور اپنے خلاف ہونے والی نئی نئی سازشوں کے قصے بیان کر رہے ہیں۔ حال ہی میں جیل سے بھیجے گئے اپنے ایک نئے پیغام میں انہوں نے ایک بار پھر  اپنے قتل کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیل میں انہیں شاید آہستہ آہستہ زہر دے کر مارنے کی دوبارہ کوشش کی جائے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی دعویٰ کر دیا کہ انہیں جلاوطن ہونے کی بھی آفر ہے لیکن وہ کہیں نہیں جائیں گے، مگر پس پردہ تو کچھ اور ہی مذاکرات کی باتیں چل رہی ہیں۔

اس سارے منظر نامے میں الیکشن گم ہو رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے جنوری میں انتخابات کروانےکا اعلان تو کردیا لیکن تاحال کوئی باقاعدہ تاریخ نہیں دے رہے۔ ذرائع کے ملک میں عام انتخابات کے لیے 28 جنوری 2024 بروز اتوار کی تاریخ متوقع ہے اور امکان ہے کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کو ایک دو روز میں تحریری طور پر آگاہ کر دےگا۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان سے تاخیر کا خدشہ ختم ہو جائے گا لیکن تاحال اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں دکھائی دے رہی۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی عدم استحکام کا مناسب حل تو الیکشن ہی ہیں لیکن الیکشن کے بعد کیا صورت حال ہوگی، یہ انتہائی اہمیت کا حامل سوال ہے۔ اگر  موجودہ حالات کے تناظر میں مسلم لیگ ن الیکشن جیت جاتی ہے تو کیا ملک میں سیاسی استحکام ممکن ہے اور اسی طرح کیا مسلم لیگ ن معاشی استحکام بھی لاسکے گی؟ واضح رہے کہ گذشتہ 16 ماہ میں بھی مسلم لیگ ن معیشت کی بحالی کا صرف دعویٰ ہی کر رہی تھی۔

اب وقت آگیا ہے کہ سب کو مل کر پاکستان کے بارے میں سوچنا ہوگا، وگرنہ جس طرح کے حالات ہیں، سیاست دانوں سے تو لوگوں کی توقعات تقریباً ختم ہی ہوچکی ہیں۔ عوام اب روٹین کے سیاسی بیانات سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب پاکستان کو قرار واقعی سیاسی و قومی حکومت کی ضرورت ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر