عمران خان صدر علوی سے مایوس کیوں؟

علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان نے ’بڑے افسوس کا اظہار کیا، وہ مایوس تھے کہ پریزیڈنٹ صاحب نے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو ان کی آئین کے مطابق ڈیوٹی تھی کہ انتخابات کا اعلان کریں۔‘

صدر پاکستان عارف علوی وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ 23 مارچ، 2022 کو یوم پاکستان کے موقع پر عسکری پریڈ کا معائنہ کرتے ہوئے (حکومت پاکستان)

پاکستان تحریک انصاف ’پی ٹی آئی‘ کے چیئرمین عمران خان کی پانچ اگست کو گرفتاری کے بعد سے ان کا کوئی براہ راست بیان تو سامنے نہیں آیا البتہ وکلا اور ان سے ملاقات کرنے والے عمران خان سے منسوب بیانات میڈیا کے ساتھ شیئر کرتے آئے ہیں۔

عمران خان اب اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور بدھ کو ملاقات کرنے والوں میں ان کی بہن بھی علیمہ خان بھی شامل تھیں۔ علیمہ نے اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کہا کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد بروقت انتخابات نا کرانے پر عمران خان، صدر عارف علوی سے مایوس ہیں۔

علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان نے ’بڑے افسوس کا اظہار کیا، وہ مایوس تھے کہ پریزیڈنٹ صاحب نے اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو ان کی آئین کے مطابق ڈیوٹی تھی کہ انتخابات کا اعلان کریں۔‘

علیمہ خان کے بقول عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ صدر عارف علوی کو ’اتنے اہم فیصلے پر اپنی قوم کے لیے کھڑا ہونا چاہیے تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بیان سے تو یوں لگتا ہے کہ عمران خان کو دکھی کرنے والوں کی فہرست میں اب  صدر عارف علوی بھی شامل ہو گئے ہیں۔

رواں سال جب عمران خان کو پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا تو نو مئی کو ان کی جماعت کے حامیوں اور مشتعل مظاہرین نے ملک کے مختلف علاقوں میں عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔

پرتشدد مظاہرین کے خلاف جب حکومت کی طرف سے کارروائیوں کا آغاز کیا گیا تو عمران خان کے بہت سے قریبی ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے اور جو اب ساتھ ہیں وہ بھی روپوش ہیں۔

پی ٹی آئی پر مشکل سیاسی وقت کے باجود اس جماعت کی حمایت سے ایوان صدر تک پہنچنے والے صدر علوی ’ڈیمیج کنٹرول‘ کی کوشش تو کرتے رہے ہیں وہ کارآمد نا ہوئیں۔

جب انہوں نے نو اگست کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کے مشورے پر اسمبلی تحلیل کی تو پی ٹی آئی کو امید تھی کہ اسی ساتھ ہی وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیں گے۔

انہوں نے اس کی کوشش بھی کی اور ستمبر کے وسط میں صدر علوی نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے نام اپنے خط میں کہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات آئین کے مطابق چھ نومبر 2023 کو ہونے چاہییں۔

انتخابات کے لیے تاریخ کے تعین کی تجویز سے قبل صدر علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو ملاقات کے لیے مدعو کیا تھا تاکہ اس بارے مشاورت کی جائے لیکن چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق صدر کے خط کا جواب دیتے ہوئے ان سے ملاقات کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔

آئین کے تحت الیکشن کمیشن ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتا ہے اور کمیشن کا کہنا ہے کہ وہ  ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کا عمل مکمل کر رہا ہے اور انتخابات جنوری 2024 کے اواخر میں کرا دیئے جائیں گے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی پانچ سالہ مدت آٹھ ستمبر کو مکمل ہو چکی ہے لیکن کیوں کہ ملک کی منتخب اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں اس لیے آئین میں اس بات کی گنجائش ہے کہ عام انتخابات کے بعد نئے صدر کے انتخابات تک وہ اس منصب پر رہ سکتے ہیں۔

کسی صدر سے یہ توقع کی جاتی ہے وہ منصب سنبھالنے کے بعد خود کو سیاسی وابسگتی سے بالاتر رکھیں گے لیکن عارف علوی کے بعض فیصلوں کے سبب بعض سیاسی جماعتیں ان پر الزام لگاتی رہی ہیں کہ ایوان صدر میں بھی عارف علوی پی ٹی آئی ہی کے کارکن رہے۔

نو ستمبر 2018 کو صدر مملکت کا حلف اٹھانے والے عارف علوی پاکستان کے 13 ویں صدر ہیں اور اب آئندہ عام الیکشن کے بعد نئے صدر کے انتخابات تک وہ ایوان صدر میں تو رہ سکتے ہیں ان اس اہم منصب اور گھر میں قیام کیسا رہا یہ تو خود ہی بتا سکیں گے لیکن جس جماعت نے انہیں یہاں بھیجا اس کے چیئرمین ان سے مایوس ہوئے اور دکھی بھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ