پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صوبائی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کل (جمعرات) کو اسلام آباد میں ایک مختصر پریس کانفرنس کے دوران پارٹی عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔
پرویز خٹک نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ملک کے سیاسی حالات مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور انہوں نے دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد پارٹی عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے بتایا، ’میں اپنا آئندہ لائحہ عمل دوستوں اور ورکرز کے ساتھ مل کر طے کروں گا۔‘
پرویز خٹک نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن پریس کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جو ’پروپیگنڈہ‘ ہو رہا ہے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
پریس کانفرنس سے پہلے پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا تھا کہ پرویز خٹک اور اسد قیصر مذاکرات کے نام پر ایجنسیوں سے ملنے گئے تھے، وہاں پر ان کو نظر بند کیا گیا ہے اور ان سے پارٹی چھوڑنے کے اعلان پر اصرار کیا جا رہا ہے۔
میں نے کمیٹی بنائی جس میں اسد قیصر اور پرویز خٹک شامل تھے، انھیں اسٹیبلشمنٹ نے بات چیت کے لیے بلا کر سیف ہاؤس میں بیٹھا لیا ہے، کہا جا رہا ہے جب تک آپ تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان نہیں کریں گے تب تک آپ کو جانے نہیں دیں گے۔ عمران خان pic.twitter.com/69emhgfkY9
— PTI (@PTIofficial) June 1, 2023
مبصرین سمجھتے ہیں کہ اسی ٹویٹ کے جواب میں پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ان کے حوالے سے کیے گئے پروپیگنڈہ میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
پرویز خٹک نے ابھی تک پارٹی سے علیحدگی کا اعلان تو نہیں کیا ہے لیکن مبصرین کے مطابق پارٹی عہدہ چھوڑنے کا مطلب یہی ہے کہ وہ کسی بھی وقت پارٹی سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے بعض مبصرین سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پرویز خٹک پارٹی عہدہ چھوڑنے کے بعد مستقبل میں پارٹی بھی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہیں تو خیبرپختونخوا میں یہ پی ٹی آئی کے لیے کتنا بڑا دھچکا ہو گا؟
لحاظ علی پشاور کے مقامی صحافی ہیں اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا، جہاں پی ٹی آئی تقریباً 10 سال اقتدار میں رہی ہے، میں شخصی ووٹ کم اور پارٹی ووٹ زیادہ دیکھا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماضی میں عمران خان نے صوبے میں جہاں سے انتخابات میں حصہ لیا ہے تو وہاں پر بیشتر حلقوں سے جیتے لیکن موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی کا کوئی بھی امیدوار اگر انتخابات میں حصہ لے گا تو اس کا سامنا مقدمات اور گرفتاریوں سے ہو گا۔
لحاظ علی نے بتایا، ’پارٹی کے مختلف رہنماؤں نے رابطے شروع کر دیے ہیں تاکہ پارٹی کا ووٹ بینک کیش کیا جا سکے۔‘
انہوں نے مزید بتایا، ’یہی رہنما یا تو ایک پی ٹی آئی حامی گروپ یا ایک دوسرا آزاد گروپ تشکیل دیں گے اور اسی پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیں گے لیکن ابھی تک یہ فیصلہ سامنے نہیں آیا۔‘
لحاظ علی نے بتایا، ’پرویز خٹک پی ٹی آئی کے واحد رہنما تھے جو عمران خان کے ساتھ ڈائریکٹ بات کر سکتے تھے جب کہ باقی جتنے بھی رہنما ہیں وہ تحریک انصاف کی دوسری لیڈرشپ یعنی اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ رابطے میں تھے تو یہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک کے بغیر اب خیبر پختونخوا میں پارٹی لیڈرشپ کے بغیر ہے اور اب جس نے بھی صوبائی قیادت پر ہاتھ رکھ دیا تو پارٹی ورکرز ان کے پاس جائیں گے۔
لحاظ علی نے بتایا، ’پرویز خٹک نے بظاہر یہ حکمت عملی اپنائی ہے کہ پارٹی کا ووٹ بینک کیش کرنا چاہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پارٹی چھوڑنے کا نہیں بلکہ عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ پرویز خٹک اور مراد سعید صوبے میں دو رہنما تھے جو پارٹی کا چہرہ تھے لیکن اب پارٹی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔‘
عارف یوسفزئی بھی پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور پی ٹی آئی کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی آئی سیاسی پارٹی کم اور ایک فین کلب زیادہ ہے کیونکہ پی ٹی آئی میں ورکرز عمران خان کے شیدائی ہیں اور وہ کسی دوسرے رہنما سے اتنی محبت نہیں رکھتے۔
عارف یوسفزئی نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں میں شخصیات کی بہت اہمیت ہوتی ہے اور اگر دیکھا جائے تو اس پارٹی میں پنجاب سمیت خیبر پختونخوا میں مختلف رہنما آئے اور اس سے پارٹی کی اہمیت بڑھ گئی تھی۔
انہوں نے بتایا، ’پرویز خٹک صرف ایک شخص نہیں بلکہ ان کے ساتھ مزید لوگ بھی جائیں گے اور ان کا پارٹی عہدہ یا پارٹی چھوڑنے سے فرق ضرور پڑے گا کیونکہ پرویز خٹک پارٹی میں ایک بااثر شخصیت تھے۔‘
عارف یوسفزئی نے بتایا کہ مستقبل قریب میں تو سیاسی منظر نامہ یہی لگ رہا ہے کہ جتنی بھی شخصیات ہیں، اگر وہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں تو ان شخصیات کے ساتھ ووٹرز منسلک ہوتے ہے تو ظاہری بات ہے وہ ووٹرز بھی انہیں شخصیات کے ساتھ جائیں گے۔
انھوں نے بتایا، ’یہی شخصیات پارٹیاں بناتی بھی اور پارٹیاں خراب بھی کرتی ہیں۔ بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے پی ٹی آئی بنائی گئی تھی ویسے ہی اب یہ اپنی پرانی اور چھوٹی سی سیاسی پارٹی تک محدود ہو جائے گی اور دوسری جانب گرفتاریوں کے خوف سے کوئی رہنما سامنے بھی نہیں آتا تو شاید پی ٹی آئی کو مستقبل میں انتخابات کے لیے کوئی امیدوار بھی نہیں ملے گا۔‘
پرویز خٹک کا سیاسی سفر
پرویز خٹک کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ کے گاؤں مانکی شریف سے ہے اور وہ ایک معروف ٹھیکہ دار ہستم خان کے گھر 1950 میں پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے ایچیسن کالج سے حاصل کی اور راولپنڈی کے گورڈن کالج سے گریجویشن کی۔ پرویز خٹک کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور ان کے ایک بیٹے اسحاق خٹک نوشہرہ کے تحصیل ناظم بھی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پرویز خٹک 2011 میں پی ٹی آئی میں شمولیت سے پہلے 1983 میں نوشہرہ کے ضلع ناظم رہ چکے ہیں اور اس کے بعد 1990، 1993 اور 1997 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سیٹ پر صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔
1990 اور 1997 کے انتخابات میں انہیں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار کے ہاتھوں شکست ہوئی جبکہ 1993 میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
2008 میں وہ اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی (شیرپاؤ) جو اب قومی وطن پارٹی بن گئی ہے، کی سیٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور اس وقت صوبائی وزیر بھی رہے لیکن پارٹی لیڈرشپ سے اختلاف کے بعد صوبائی اسمبلی میں آزاد گروپ جوائن کر لیا۔ اس کے بعد2011 میں پارٹی سے مستعفی ہو کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔
پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد2013 کے عام انتخابات میں وہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا منتخب ہوئے اور 2018 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس کے بعد 2018 کے عام انتخابات میں پرویز خٹک کو مرکز میں وفاقی وزیر دفاع کا عہدہ دیا گیا۔
ماضی میں پرویز خٹک کے پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر عاطف خان کے ساتھ اختلافات بھی ہوئے اور2018 کے عام انتخابات کے بعد پرویز خٹک اور عاطف خان وزیر اعلیٰ کے امیدوار بن کر بھی ابھرے تھے لیکن بعد میں سوات سے تعلق رکھنے والے محمود خان کو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا منتخب کیا گیا تھا۔