نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہاتھی انسانوں کے بعد پہلے جانور ہو سکتے ہیں جو ایک دوسرے کو ناموں سے پکارتے ہیں۔
یہ تحقیق اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ جانوروں کی تمام انواع میں زبان کے ارتقا پر مزید روشنی ڈالتی ہے۔
دیگر ماہرین کی جانب سے بھی جائزہ لیا گیا یہ مطالعہ، جو بائیو آرکسیو (bioRxiv) میں شائع ہونا ہے، کینیا کے سوانا ماحولیاتی نظام میں رہنے والے افریقی ہاتھیوں پر کیا گیا تھا۔
محققین نے دیکھا کہ ان ہاتھیوں نے انفرادی طور پر مخصوص آوازوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مخاطب کیا۔
سائنس دانوں نے یہ جاننے میں خاص طور پر دلچسپی لی کہ آیا ایک ہاتھی کی طرف سے دوسرے کے لیے پکارنے والے کی آواز اس کی اپنی آواز کی نقالی تو نہیں کر رہے جیسا رجحان ڈولفن اور طوطوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔
انہوں نے محسوس کیا کہ ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ ہاتھی پکارے جانے والے ساتھی کی نقل نہیں کر رہے تھے۔
تحقیق میں شامل امریکہ کی کولوراڈو سٹیٹ یونیورسٹی اور دیگر محققین نے مطالعے میں لکھا: ’ہماری معلومات کے مطابق یہ مطالعہ انسانوں کے علاوہ دیگر ایک ہی انواع کے جانوروں میں پکارے جانے والوں کی نقل کے بغیر ایک دوسرے کو نام سے پکارنے کا پہلا ثبوت پیش کرتا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’یہ (تحقیق) زبان کے ارتقا کے بارے میں ہماری فہم میں اضافے کے لیے اہم ہو سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سائنس دانوں نے شمالی کینیا کے گریٹر سمبورو ایکو سسٹم میں ہاتھیوں کی کم فریکونسی والی 527 آوازیں اور جنوبی کینیا کے امبوسیلی نیشنل پارک میں 98 آوازیں ریکارڈ کیں۔
انہوں نے الگ الگ ہاتھیوں کے لیے مخصوص آوازوں کی نشاندہی کی اور معلوم کیا کہ یہ ہر ایک کے لیے مختلف تھیں۔
ان انفرادی آوازوں کا تجزیہ کرتے ہوئے سائنس دانوں نے ان آوازوں کے لیے مخصوص صوتی خصوصیات کی پیمائش کی اور ڈیٹا کے مطابق ان کی جانچ کی کہ آیا پکارے جانے والے ہاتھی کی آواز کی شناخت کا اندازہ لگانا ممکن تھا یا نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی ہاتھی کو مختلف ہاتھیوں کی جانب سے ایک جیسی آوازوں سے پکارا جا رہا تھا۔
سائنس دانوں نے کہا کہ ’پکارے جانے والے ہاتھی کے لیے استعمال ہونی والی آواز ساختی طور پر درست طریقے سے شناخت کیا جا سکتا ہے جو کہ اعداد و شمار کے لحاظ سے کسی گمان سے بہتر ہے۔‘
مجموعی طور پر سائنس دان 114 منفرد آوازیں نکالنے والے اور 119 منفرد پکارے جانے والے ہاتھیوں کی تلاش کر سکے۔
محققین نے ہاتھیوں میں سے 17 کو خصوصی طور پر مخاطب کی گئی آوازوں کی ریکارڈنگ چلائی تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ انہوں نے اس پر کیا ردعمل دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ (ردعمل) ناموں سے ملتے جلتے صوتی لیبلز کے وجود کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ کنٹرول پلے بیک کے مقابلے میں ٹیسٹ پلے بیک کے ردعمل میں پکارے جانے والے ہاتھی زیادہ تیزی سے سپیکر تک پہنچے اور زیادہ تیزی سے جواباً آوازیں نکالیں۔
ہاتھیوں میں پہلی بار مشاہدہ کیا گیا یہ طرز عمل ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ کے قریبی پھنسے ہوئے اس انواع کے ارکان چنگھاڑنے کے ذریعے طویل فاصلے تک بات چیت اور ہم آہنگی پیدا کر سکتے ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ نام رکھنے سے ہاتھیوں کو ایک مخصوص ہاتھی کی توجہ مبذول کرنے میں مدد ملتی ہے اور جب وہ ایک دوسرے سے نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں تو اس سے ان کو (خوراک کے) وسائل کی طرف جانے یا وہاں سے آنے کے لیے ان کی ہم آہنگی کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
مزید مطالعات سے سائنس دانوں کو مزید سمجھنے کی امید ہے کہ ماحول کے کس قسم کے دباؤ نے ہاتھیوں کو ناموں کو استعمال کرنے کے لیے اس طریقہ کار کو اپنانے پر مجبور کیا۔
© The Independent