ہو سکتا ہے 417 ارب اب واپس ہی نہ ملیں: عمران خان

وزیراعظم عمران خان نے قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ گیس انفراسٹرکچر ڈویلمپنٹ سیس پر عدالت میں جانے سے یہ بھی ممکن ہے کہ جو واجبات آرڈیننس کی وجہ سے حکومت کو ملنے تھے وہ بھی شاید اب نہ ملیں کیوں کہ عدالت سے کوئی بھی فیصلہ آ سکتا ہے۔

اس آرڈیننس کے جاری ہونے کے بعد حکومت کو شدید تنقید کا سامنا تھا اور تجزیہ کار اسے صنعتکاروں کے لیے ’این آر او‘ قرار دے رہے تھے۔(اے ایف پی)

وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے گیس انفراسٹرکچر ڈویلمپنٹ سیس کی مد میں صنعتوں کے ذمہ آدھے واجبات معاف کرنے کے آرڈیننس کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ساتھ ہی میں آرڈیننس کو جاری کرنے اور اس کے واپس لیے جانے سے ہونے والے ممکنہ مالی نقصان کا بھی ذکر کیا ہے۔

وزیراعظم آفس سے جاری شدہ بیان کے مطابق سیس(سرچارج) کی مد میں کمپنیوں کے ذمے 417 ارب روپے واجب الادا تھے جو کہ جنوری 2012 سے لے کر دسمبر 2018 کے دورانیے کے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ سیس کو ختم کرنے کی شق کالعدم قرار دے چکی ہے جس کے بعد حکومت نے نئی قانون سازی کی تھی اور اس قانون سازی پر بھی کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں۔

بیان کے مطابق اسی بنا پر حکومت نے آدھے پیسے واپس لینے کے لیے کمپنیوں سے عدالت کے باہر معاملات طے کرتے ہوئے آرڈیننس جاری کیا مگر حالیہ تنازعے کے بعد وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ شفافیت اور گڈ گورننس کو مدنظر رکھتے ہوئے آرڈیننس کو واپس لے لیا جائے اور اٹارنی جنرل کو حکم دیا ہے کہ سپریم کورٹ میں اس معاملے کی جلد سماعت کے لیے درخواست دائر کی جائے تاکہ معاملہ آئین کے مطابق حل کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاملے پر عدالت میں جانے سے یہ بھی ممکن ہے کہ جو واجبات آرڈیننس کی وجہ سے حکومت کو ملنے تھے وہ بھی شاید اب نہ ملیں کیوں کہ عدالت سے کوئی بھی فیصلہ آ سکتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو مکمل 417 ارب روپے بھی واپس مل سکتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک روپیہ بھی نہ ملے۔

اس آرڈیننس کے جاری ہونے کے بعد حکومت کو شدید تنقید کا سامنا تھا اور تجزیہ کار اسے صنعتکاروں کے لیے ’این آر او‘ قرار دے رہے تھے۔

اسی ضمن میں گزشتہ روز حکومتی وزرا نے حکومت کے اس فیصلے کا مکمل دفاع کیا تھا۔ پیر کے روز پریس کانفرنس کے دوران حکومتی وزرا کا کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کے گزشتہ دور حکومت میں سی این جی سیکٹر کے لیے جاری آرڈیننس کی بنیادوں پر بنایا گیا تھا۔  وزیر توانائی عمر ایوب کا کہنا تھا کہ یہ آرڈیننس کوئی ’فری لنچ‘ (مفت رعایت) نہیں ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی آرڈیننس پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس آرڈیننس سے معیشت کو فائدہ ہو گا۔

آرڈیننس کیا تھا؟

آرڈیننس کے مطابق گیس استعمال کرنے والی صنعتوں کے ذمے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی مد میں واجب الادا رقوم کی واپسی کو صنعتوں کے لیے آسان بنانے کے لیے آدھی رقم معاف کر دی گئی تھی جب کی باقی رقم کا آدھا حصہ انہیں آنے والے 90 دنوں میں ادا کرنا تھا۔

گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس ہے کیا؟

گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس 2011 میں پیپلز پارٹی کے دور میں لاگو کی گئی جس کے تحت وہ صنعتیں جو گیس کا استعمال کر رہی تھیں انہیں اس پر ادائیگیاں کرنی تھی۔ حکومت کا اس سیس کو اکٹھا کرنے کا مقصد ایران پاکستان گیس پائپ لائن اور ترکمانستان، افغانستان، پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کرنا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت