برطانیہ: بورس جانسن کی فوری انتخابات کی کوشش ناکام

برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کو 2022 تک انتخابات نہ کرانے کی طاقت دینے والے بل کو منظور کرنے سے انکار دیا۔

برطانوی پارلیمان میں وزیر اعظم بورس جانسن حریف جیرمی کوربن کو جواب دیتے ہوئے (اے ایف پی)

بورس جانسن کی 31 اکتوبر کو بریگزٹ کو یقینی بنانے کے بعد فوری انتخاب کی کوشش برطانوی پارلیمان میں ناکامی سے دوچار ہوگئی۔

برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے وزیر اعظم کو 2022 تک انتخابات نہ کرانے کی طاقت دینے والے بل کو منظور کرنے سے انکار دیا۔

انہیں ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے نو ڈیل بریگزٹ کی راہ روکنے والے بل کے پاس کرنے سے دو گھنٹے بعد ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بورس جانسن اس صورتحال کے بعد مزید مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہیں وزات اعظمی کا حلف اٹھائے ابھی محض چھ ہفتے ہوئے ہیں۔

وزیر اعظم کی مرضی کی تاریخ یعنی 15 اکتوبر کو بھی انتخابات کا انعقاد ممکن ہے اگر یہ بل منگل تک پاس ہو جاتا ہے۔ ایسا ہونا اس لیے بھی ممکن دکھائی دیتا ہے کیونکہ جمعہ کو برطانوی دارلامرا میں لارڈز نے اس حوالے سے اتفاق رائےکر لیا ہے۔

جیرمی کوربن بھی الیکشن میں تاخیر کی وجہ سے لیبر پارٹی میں بڑھتی مخالفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ جانسن موجودہ صورتحال سے نکلنے کے واحد راستے یعنی انتخابات سے انکار پر لیبر رہنما کو ’جلا بھنا‘ اور ’کلورینیٹڈ چکن‘ کہہ چکے ہیں۔

نو ڈیل کو روکنے والا بل ابھی منظور نہیں ہوا تھا اس لیے اپنے اراکان پارلیمنٹ کو ووٹ ڈالنے سے منع کرتے ہوئے کوربن کا کہنا تھا: ’آج ایک انتخابات کی پیشکش ظالم ملکہ کی جانب سے سنو وائٹ کو ایک سیب دینے کی پیشکش جیسا ہے۔ کیونکہ یہ جو پیشکش دے رہے ہیں وہ ایک سیب یا الیکشن کی نہیں بلکہ نو ڈیل کا زہر ہے۔‘

حکومت فوری انتخاب پر 298 ووٹوں کے مقابلے میں 56 ووٹوں سے جیت چکی ہے لیکن پارلیمنٹ کی معین کردہ مدت کے ایکٹ کو بدلنے کے لیے اسے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔

اس نتیجےکے بعد وزیر اعظم نے اپنے مخالفین پر طنز تو کیا لیکن ان کی جانب سے اعصاب شکن بریگزٹ سے نمٹنے کے طریقہ کار کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا۔

جانسن کے مطابق کوربن الیکشن کی حمایت نہ کر کے پہلے کہی اپنی بات سے پھر رہے ہیں جس میں ان کا کہنا تھا: ’ہمیں اس بغاوت کو روکنا ہوگا اور لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دینا ہوگی۔‘ جانسن نے کہا: ’میں اس ہچکچاہٹ کے پیچھے موجود ایک ہی وجہ سمجھ سکتا ہوں۔ اس کا یقینی نتیجہ یہی ہے کہ وہ (کوربن) جانتے ہیں کہ وہ جیت نہیں سکیں گے۔‘

نوڈیل بریگزٹ کو ٹالنے کے لیے اور جانسن کو یورپی یونین سے بریگزٹ میں تاخیر مانگنے پر مجبور کرنے کے لیے اس بل پر ہاوس آف لارڈز میں ایک طویل نشست کے بعد صبح ڈیڑھ بجے تک بحث جاری رہی۔ کئی شرکا اس اجلاس میں اضافی کپڑوں، ٹوائلٹ پیپرز کے ساتھ تشریف لائے تاکہ اس ڈرامائی جنگ میں شامل رہ سکیں۔

بریگزٹ کے حامی ٹوریز اس قانون کو ختم کرنے کے لیے اس میں سو سے زیادہ ترامیم تجاویز کرنے کے لیے تیاری کر رہے تھے لیکن ان کو رات گئے اس وقت جھٹکا لگا جب حکومت نے کہا کہ وہ لیبر کے ساتھ ممکنہ ویک اینڈ سیشنز سے بچنے کے لیے کسی ڈیل پر پہنچ چکی ہے۔

کنزرویٹو جماعت کے چیف وہپ لارڈ آشٹن آف ہائڈ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے انخلا کے بل کے تمام مراحل جمعے کی شام 5 بجے تک طے کر لیے جائیں گے۔ جس سے ہاوس آف کامنز کے لیے اس قانون میں سوموار تک ترامیم کر کے شاہی منظوری کے لیے تیار کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

اسی دوران جیرمی کوربن لیبر کے اندر ایک بغاوت سے نبرد آزما ہیں کیونکہ وہ یورپی یونین کی جانب سے بریگزٹ میں تاخیر پر باقاعدہ اتفاق ہونے تک انتخابات کو روکنا چاہتے ہیں۔ ایسا کرنا بریگزٹ کو کم سے کم نومبر تک ٹال سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیبر پارٹی کے بریگزٹ ترجمان کیر سٹارمر ان اہم رہنماوں میں شامل ہیں جو لیبر رہنما کو اپنا موجودہ موقف سخت کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں جس کے مطابق فوری انتخابات تب ہی ممکن ہیں جب یہ قانون منظور ہو چکا ہو۔

انہیں خدشہ ہے کہ یہ آرٹیکل 50 کو مکمل ختم نہیں کرے گا جس کے تحت یورپی یونین کے تمام 27 ممالک کا اتفاق کرنا شرط ہے اور جس کا سربراہی اجلاس اکتوبر کے اختتام تک ہی ممکن ہے۔

ان کے خیال میں اس سے رک جانا جانسن کو ’اپنی ہی مشکلات میں گلنے سڑھنے‘ میں مصروف رکھے گا اور وہ بارہا انکار کرنے کے بعد باالاخر بریگزٹ پر تاخیر کا تذلیل آمیز فیصلہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔

لیکن کوربن اپنے ارادوں کا واضح اعلان کر چکے ہیں جب انہوں نے دارالعوام کو بتایا: ’اس قانون کو پاس ہوکر شاہی منظوری حاصل کرنے دیں تب ہی ہم الیکشن کی حمایت کریں گے۔‘

یہ شکست جانسن کے لیے پہلے سے ہی مشکل دن پر آئی ہے جو بطور وزیر اعظم اپنی کارکردگی پر کنزرویٹو اراکان کی ملاقات کے دوران کیے جانے والے سوالوں کا جواب نہ دے سکنے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنے۔

وہ اپنے ’نائٹ آف دا لانگ نائیوز‘ میں ان 12 باغی ٹوری ایم پیز کو نکالنے کے فیصلے پر مخالفت کا سامنا کر رہے ہیں جو اس آنے والے قانون کی حمایت کر رہے تھے۔ ان میں کین کلارک، فلپ ہیمنڈ اور روری سٹیورٹ جیسے ہیوی ویٹس بھی شامل ہیں۔

بیک بینچ 1922 کمیٹی کے اجلاس میں جانسن پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اس فیصلے کی ذمہ داری اپنے چیف وہپ پر ڈالی ہے۔ انہیں اس فیصلے کو بدل کر ان اراکان کے کرئیر بحال کرنے کا بھی کہا گیا۔

ووٹروں کا رجحان بھی سخت گیروں کے موقف کی نفی کرتے نظر آیا۔ یو گورنمنٹ پول کے مطابق 45 فیصد کے مطابق ان ایم پیز کو نکالے جانا ’غیر جمہوری‘ اقدام تھا۔ جبکہ صرف 32 فیصد نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔

اسی سروے میں یہ سامنے آیا کہ وزیر اعظم کی جانب سے پارلیمنٹ کو پانچ ہفتوں کے لیے معطل کرنا بھی 46 فیصد اراکین کے مطابق غیر جمہوری قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جبکہ 32 فیصد اس اقدام کی حمایت کر رہے ہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ