کیا مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ’واک اوور‘ سیاست کر رہی ہیں؟

قومی جماعتوں کی ہنرکاری بتاتی ہے کہ ان کے خیال میں ایک نیم خواندہ سماج میں سیاست بہت آسان ہوتی ہے، یہاں کوئی منشور پوچھتا ہے نہ یہاں کسی سے اس کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی سوال ہوتا ہے۔

ملک کے عام انتخابات سے قبل 13 جنوری 2024 کو لاہور کے ایک بازار میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے جھنڈے فروخت کیے جا رہے ہیں (عارف علی/ اے ایف پی)

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل موجود ہے یا وہ صرف اس بات پر خوش ہیں کہ ان کا حریف میدان میں موجود ہی نہیں اور انہیں ’واک اوور‘ مل چکا ہے؟

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

انتخابات سر پر ہیں اور مسلم لیگ ن ابھی تک اپنا انتخابی منشور ہی نہیں دے سکی۔ اگر منشور ہی موجود نہیں ہے تو اس کے امیدواران ووٹ کس بنیاد پر مانگ رہے ہیں؟

پیپلز پارٹی کا ایک عدد منشور، انگریزی زبان میں اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے لیکن اس کی اردو زبان میں کوئی دستاویز نہیں مل سکی۔ معلوم نہیں، بلاول صاحب کے ووٹروں میں سے کتنے ہیں جو انگریزی میں ان کا منشور پڑھ سکیں۔

اس دفعہ پیپلز پارٹی کا منشور صرف چھ صفحات پر مشتمل ہے، 2018 کے انتخابات میں اس کا منشور 68 صفحات پر مشتمل تھا اور 2013 کے انتخابات میں یہ 42 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس مرتبہ ایسی بے نیازی کیوں؟ پارٹی کے پاس سوچ بچار کر کے منشور تیار کرنے والے ماہرین نہیں رہے یا ’واک اوور‘ کے انتخابی منظر نامے نے پارٹی قیادت کو اس تکلف سے بے نیاز کر دیا ہے؟

گویا پیپلز پارٹی نے منشور کے نام پر محض ایک قانونی تقاضا پورا کیا ہے جب کہ مسلم لیگ ن ابھی تک یہ تقاضا بھی پورا نہیں کر سکی۔

دونوں جماعتیں زبانِ حال سے اس بات کا اعتراف کر رہی ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے منشور تیار کرنا اور اسے عوام کے سامنے رکھ کر عوام کو قائل کرنا ضروری نہیں ہے۔ کامیابی کے لیے امورِ دیگر کا کشتہ مرجان کافی ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس زاد راہ کے ساتھ ہم سلطانی جمہور کے نئے زمانے میں داخل ہو رہے ہیں؟

عمران خان کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ ان کا سارا بیانیہ بھی ان کی اپنی کسی خوبی کی بجائے سیاسی مخالفین کی ہجو پر استوار تھا۔ ان کے سیاسی حریف بھی اسی حربے سے مسلح ہیں۔

قومی جماعتوں کی ہنرکاری بتاتی ہے کہ ان کے خیال میں ایک نیم خواندہ سماج میں سیاست بہت آسان ہوتی ہے۔ یہاں کوئی منشور پوچھتا ہے نہ یہاں کسی سے اس کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی سوال ہوتا ہے۔ یہاں نفرت اور عقیدت کی بنیاد پر صف بندی ہوتی ہے اور آسودہ حال اشرافیہ محروم طبقات کی محرومیوں کا استحصال کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چنانچہ یہاں بلاول بھٹو 30 لاکھ گھر دینے کی بات کرتے ہیں تو کوئی پلٹ کر یہ نہیں پوچھتا کہ عالی جاہ، ذرا یہ بھی بتا دیجیے کہ یہ سب کیسے ممکن ہو گا؟

غربت کے مارے ووٹروں کے سامنے یہاں مریم نواز صاحبہ اعلان کرتی ہیں کہ 200 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کریں گے تو بلاول صاحب آگے بڑھ کر فرماتے ہیں کہ وہ 300 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کریں گے۔ بلاول کا اعلان سنتے ہیں تو حمزہ شہباز مفت کے یونٹوں میں 100 یونٹ کا اضافہ کر دیتے ہیں کہ عزیز ہم وطنو ہم بھی اب 300 یونٹ بجلی مفت فراہم کریں گے۔

 تالیوں کا شور اتنا ہوتا ہے کہ کسی رہنما سے یہ نہیں پوچھا جا سکتا کہ گرامی قدر، ذرا یہ تو بتاتے جائیے کہ یہ مفت کی بجلی کے لیے دو ہزار ارب کی سبسڈی آپ کہاں سے دیں گے؟

 معاشرہ آگے بڑھ گیا ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پیچھے رہ گئی ہیں۔ یہ سفر اسی طرح جاری رہا تو یہ سیاسی قیادت اپنے ہی سماج میں غیر متعلق ہو جائے گی۔

 سمارٹ فون آنے کے بعد معاشرہ بدل چکا ہے۔ سیاست کے دہائیوں پرانے طریقہ واردات سے اس معاشرے کو کچھ زیادہ متاثر کرنا ممکن نہیں ہے۔ نوجوان ووٹروں کی بھاری تعداد قومی دھارے میں آ چکی ہے۔ ان کی ہتھیلی پر بھی محرومیاں تو ہیں مگر ان کی آنکھوں میں کچھ خواب بھی ہیں اور ان کی زبان پر سوالات بھی ہیں۔ سیاسی قیادت اگر سماجی تبدیلی کی اس لہر سے بے نیاز رہے گی تو اپنا ہی نقصان کرے گی۔

جنگ کی طرح سیاست بھی ایک ہنڈولا ہے، یہ اوپر بھی جاتا ہے اور نیچے بھی آتا ہے۔ اس ہنڈولے کے ہمراہ سوال اب صرف یہ نہیں کہ الیکشن میں کیا ہو گا، سوال یہ بھی ہے کہ جب عمران خان جیل سے باہر آئیں گے تب کیا ہو گا؟

حادثہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف نے اپنی ابلاغی صلاحیت کا منفی استعمال کرتے ہوئے معاشرے کو نفرت کے الاؤ میں جھونک دیا اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ابھی تک سماج کے نئے رجحانات کو اپنا مخاطب بنایا ہی نہیں۔ معلوم نہیں، یہ ان کی ترجیح نہیں ہے یا وہ اس صلاحیت سے ہی محروم ہیں۔

سیاست محض تکنیکی بنیادوں پر حریف کو ناک آؤٹ کرکے الیکشن جیتنے کا نام نہیں۔ سیاست محض ’واک اوور‘ سے لطف اندوز ہونے کا نام بھی نہیں۔ سیاست ایک سماجی رومان ہوتا ہے اور سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے وہ اس رومان کو کسی نہ کسی درجے میں قائم رکھے۔ جن جماعتوں کے ساتھ سماج کا کوئی رومان وابستہ نہ رہے وہ جماعتیں ’واک اوور‘ کے باوجود ہار جاتی ہیں۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا رومان کہاں ہے؟ بھٹو بے شک زندہ ہوں گے، خدا انہیں لمبی عمر دے لیکن اس نعرے سے اب معاشرے کا کتنا رومان باقی رہ گیا ہے؟ مسلم لیگ کا بھی یہی عالم ہے، اس کے ساتھ اگر معاشرے میں کوئی رومان وابستہ ہو تو یہ بریکنگ نیوز ہو گی۔

دونووں جماعتوں کو سمجھنا ہو گا کہ پرانی نسل کی وابستگیاں برفاب ہو چکیں۔ سیاست میں اب نئی نسل آ چکی ہے۔ اس نئی نسل کو متاثر کرنے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پاس کیا ہے؟

جنگ کی طرح سیاست بھی ایک ہنڈولا ہے، یہ اوپر بھی جاتا ہے اور نیچے بھی آتا ہے۔ اس ہنڈولے کے ہمراہ سوال اب صرف یہ نہیں کہ الیکشن میں کیا ہو گا۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب عمران خان جیل سے باہر آئیں گے تب کیا ہو گا؟

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اگر ’واک اوور‘ کے جشنِ طرب سے نکل سکیں تو یہ سوال ان کی توجہ کا طالب ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر