آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پسند کریں گے: بلاول بھٹو

پاکستان کا وزیراعظم بننے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی کوششوں کا محور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دور رس حکمت عملی والے منصوبے اور نوجوان ووٹرز کو اپنی پارٹی کی جانب راغب کرنا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ن لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات 2024 میں حکومت بنانے کے لیے وہ آزاد امیدواروں کے ساتھ حکومت بنانے کو ترجیح دیں گے۔

یہ بات انہوں نے برطانوی خبررساں ادارے روئٹر کو دیئے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو کہی۔

پاکستان کا وزیراعظم بننے کے لیے بلاول بھٹو زرداری کی کوششوں کا محور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دور رس حکمت عملی والے منصوبے اور نوجوان ووٹرز کو اپنی پارٹی کی جانب راغب کرنا ہے۔

کامیابی کی صورت میں وہ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار کے بعد سب سے کم عمر وزیراعظم بن جائیں گے۔

آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے قریب آتے ہی ملک کو دو وزرائے اعظم دینے والے خاندان سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ بلاول بھٹو نے سیاسی اور معاشی عدم استحکام ختم کرنے کرنے کے لیے نئے خیالات اور قیادت کا مطالبہ کیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی صوبہ سندھ میں واقع اپنے آبائی شہر لاڑکانہ میں روئٹرز کو بتایا کہ ’آج کیے گئے فیصلوں کے مضمرات پاکستان کے نوجوانوں کو بھگتنا پڑیں گے۔ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ یہ فیصلے انہیں کرنے کی اجازت دی جائے۔‘

پاکستان کی 24 کروڑ 10 لاکھ کی آبادی کا تقریبا دو تہائی حصہ 30 سال سے کم عمر کا ہے جبکہ 2000 کے بعد سے اس کے وزرائے اعظم اوسطا 61 سال سے زیادہ عمر کے رہے ہیں۔

برطانیہ کی آکسفورڈ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کر نے والے بلاول بھٹو زرداری کی عمر تین بار کے وزیراعظم نواز شریف (74) اور سابق کرکٹ سپر سٹار عمران خان (71) کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔

تجزیہ کار اگلے ماہ ہونے والے انتخابات میں نوازشریف کو سب سے آگے سمجھتے ہیں اور عمران خان نے 2018 کا آخری انتخاب جیتا تھا۔

انتخابات میں فتح حاصل جرنے والے کو تاریخی افراط زر اور روپے کی غیر مستحکم کرنسی سے نبردآزما 350 ارب ڈالر کی معیشت کی بحالی کا چیلنج درپیش ہوگا جس کے باعث نوجوانوں کے لیے ترقی اور روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔

جنوبی ایشیائی ملک پاکستان کو جولائی میں آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا قرض ملا تھا جس کے نتیجے میں سٹینڈ بائی معاہدے سے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے روکا گیا تھا، وہ رواں موسم بہار میں ختم ہو جائے گا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مالی مشکلات کے باوجود ان کے پاس مفت بجلی کی فراہمی اور سماجی تحفظ کے پروگراموں کو فروغ دینے کا جامع منصوبہ ہے۔

انہوں نے اپنی پارٹی کے انتخابی منشور کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کو اول اور مرکز میں رکھتے ہوئے پاکستان کے ترقیاتی ماڈل کو مکمل طور پر از سر نو تشکیل دینے کی تجویز دیتے ہیں۔‘

پاکستان میں اس وعدے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ 2022 میں آنے والے بڑے سیلاب کے بعد گذشتہ سال وعدہ کیے گئے 10 ارب ڈالر سے زائد کے فنڈز موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔اس سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں 70 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔

پاکستان کے سب سے طاقتور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے بلاول بھٹو زرداری نے چار ہفتوں تک جاری رہنے والی انتخابی مہم کے دوران وہ 33 سے زائد قصبوں میں گئے ہیں جبکہ دیگر جماعتوں نے گذشتہ ہفتے ہی انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔

وہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے ہیں، جنہیں 2007 میں انتخابی مہم کے دوران قتل کر دیا گیا تھا اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں، جنہیں 1979 میں ایک فوجی آمر نے پھانسی دے دی تھی۔

اگر بلاول بھٹو زرداری انتخابات جیت جاتے ہیں، تو حکومت کی تشکیل کی غیر یقینی صورت حال کے تحت، حساب کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ وہ 1988 میں اقتدار میں آنے کے بعد اپنی والدہ کی عمر سے صرف 25 دن چھوٹے ہوں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ امکان کیا ہے تو انہوں نے کہا ’میں نے واقعی گنتی نہیں کی ہے، لیکن ... میرے خیال میں وہ سب سے کم عمر تھیں۔‘

متبادل انتخاب

تاہم ان کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ہاتھوں اپنی جگہ کھو چکی ہے، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سیاسی جنگ میں مصروف ہیں۔

2024 میں خود کو عمران خان کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے انہوں نے حال ہی میں خان کے حامیوں سے اپیل کی تھی کہ چوں کہ ان کا لیڈر جیل میں ہے، لہذا وہ انہیں ووٹ دیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2013 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نواز شریف کی جماعت کے بعد دوسرے نمبر پر رہی اور اس نے 342 میں سے 42 نشستیں حاصل کیں۔ 2018 میں 54 نشستوں کے ساتھ وہ نواز شریف اور خان دونوں کی پارٹیوں  کے بعد رنراپ رہی۔

تاہم بلاول بھٹو زرداری نے کسی بھی امیدوار کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ آزاد امیدواروں کے ساتھ حکومت بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں بہت سے آزاد سیاست دان، جو شاید ہماری تاریخ میں سب سے زیادہ (تعداد) ہیں، حصہ لے رہے ہیں۔‘

زیادہ تر آزاد امیدواروں کا تعلق عمران خان کی پارٹی سے ہے جو اس ماہ ایک پلیٹ فارم پر انتخاب لڑنے کا حق کھو چکی ہے۔

لیکن ایک تجزیہ کار کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کا کردار بھٹو زرداری کے لیے ایک مشکل ہو سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

ولسن سینٹر کے ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ ’ہوسکتا ہے کوئی بلاول کو وزارت عظمیٰ کے لیے ڈارک ہارس امیدوار سمجھتا ہو لیکن میں انہیں ابھی تک وزیر اعظم کے طور پر نہیں دیکھتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’انتخابات کے نتیجے میں ممکنہ طور پر مخلوط حکومت بنے گی اور بلاول بھٹو کابینہ کی سطح کے عہدے کے لیے مخلوط پوزیشن میں شامل ہوسکتے ہیں، لیکن اعلیٰ عہدہ ملنے کا امکان نہیں۔‘

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کے ساتھ ’کشیدگی‘ کے بعد طاقتور فوج نواز شریف کی حمایت میں ہے، جس سے انہیں ایک ایسے ملک میں برتری حاصل ہو گئی ہے جہاں فوجی جرنیل حکومتیں بنانے میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا گیا کہ کیا نواز شریف کی جماعت کو کسی اور کی مدد حاصل ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’وہ یقینی طور پر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے پاکستان کے عوام کے علاوہ کسی اور پر انحصار کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ شفافیت کے سوالات ماضی کی طرح 2024 کے انتخابات پر بھی منڈلاتے رہیں گے، لیکن انہیں اور ان کی پارٹی کو توقعات کے برعکس جیتنے کی امید ہے۔

نوجوانی میں سیاسی میدان میں اترنے والے بھٹو زرداری کو 2007 میں اپنی والدہ کے قتل کے بعد ان کی پارٹی وراثت میں ملی لیکن تعلیم مکمل ہونے تک انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کیے رکھی۔

ان کے والد آصف علی زرداری بینظیر بھٹو کی وفات کے بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔

بلاول بھٹو زرداری نے 2018 میں اپنے پہلے سیاسی مقابلے میں پارلیمانی نشست جیتی تھی، جس کے بعد 16 ماہ، اگست 2023 تک وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست