پیپلز پارٹی کی پنجاب پر توجہ، ن لیگ کے گڑھ لاہور سے بلاول بھٹو میدان میں

لاہور سے گذشتہ کئی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی صوبائی یا قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہیں کر سکی  اور اب مسلم لیگ ن کے گڑھ سمجھے جانے والے لاہور میں پیپلز پارٹی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ہی میدان میں اتارا ہے۔

24 دسمبر 2023 کی اس تصویر میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے (احمد رضا سومرو/ اے ایف پی)

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور سے گذشتہ کئی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) صوبائی یا قومی اسمبلی کی کوئی نشست حاصل نہیں کر سکی اور اس بار مسلم لیگ ن کے گڑھ سمجھے جانے والے لاہور میں پی پی پی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ہی میدان میں اتار دیا ہے۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی کے حلقے 127 میں بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کئی دن پہلے سے شروع کر دی گئی ہے۔ اس حلقے سے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز بھی بلاول کی قیادت میں ہی کیا گیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بلاول کے لیے این اے 127 کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا ہے؟ الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیوں کے بعد جن علاقوں پر مشتمل حلقے کا نمبر 127 دیا گیا ہے، اس کا نمبر پہلے 133 تھا، جہاں ذوالفقار علی بھٹو دور کے بعد سے مسلم لیگ ن کا قبضہ رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق اس حلقے میں 2018 کے انتخابات میں چار لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ووٹرز میں سے دو لاکھ 22 ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے تھے اور ٹرن آؤٹ کا تناسب 50 فیصد سے زائد ریکارڈ کیا گیا تھا۔ 

گذشتہ دو انتخابات میں اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار اسلم گل آٹھ فروری کے انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کی کامیابی کے لیے پر امید ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے دور میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں انہیں باقی حلقوں کی نسبت سب سے زیادہ 36 ہزار ووٹ ملے تھے۔ ’اب بلاول یہاں سے لڑیں گے تو ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملنے کا قوی امکان ہے کیونکہ مسلم لیگ ن مخالف، پی ٹی آئی، غریب آبادیوں اور مسیحی ووٹ ہمیں ملیں گے اور ہم یہاں سے سیٹ جیت سکتے ہیں۔‘

این اے 127 جیتنے کے لیے کیا فارمولا استعمال ہوسکتا ہے؟

اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے سابق امیدوار اسلم گل نے اپنے تجربے کے بارے میں بتایا: ’یہ تاثر درست نہیں ہے کہ لاہور مسلم لیگ ن کا گڑھ ہے کیونہ بھٹو دور میں لاہور سے تمام نشستیں ہم نے جیتی تھیں۔ اس کے بعد بھی ہم کئی بار لاہور میں نشستیں جیت چکے ہیں۔ اس حلقے سے 2018 میں پرویز ملک مسلم لیگ ن کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد جب ضمنی الیکشن ہوا تو ہم نے یہاں سے 36 ہزار ووٹ حاصل کیے لیکن کامیاب اگرچہ مسلم لیگ ن کی امیدوار شائستہ پرویز ملک ہوئیں۔‘

ان کے خیال میں: ’ٹاؤن شپ، بہار کالونی، گارڈن ٹاؤن اور کچی آبادیوں پر مشتمل اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے ووٹرز کی تعداد دیگر حلقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ مسلم لیگ ن مخالف پی ٹی آئی ووٹرز بھی بلاول کو ووٹ دیں گے۔‘

اسلم گل نے بتایا کہ ’اس حلقے میں بلاول خود مہم چلا رہے ہیں۔ مسیحی آبادی کے 15 ہزار سے زائد ووٹ ہیں۔ یہاں 35 چرچ ہیں اور بلاول نے ان سے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سوال پر کہ کیا بلاول کی جیت میں بھٹو کا نظریہ کارگر ثابت ہو سکتا ہے؟ اسلم گل نے جواب دیا کہ ’ہم بھٹو کا نظریہ اور عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور اسی کے ذریعے کامیابی حاصل کریں گے۔ یہاں بلاول صاحب کو جو پذیرائی مل رہی ہے وہ بے مثال ہے، لوگ خود ہمیں بلا کر شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس بار ایک لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے اس نشست کو جیت کر لاہور اور پنجاب کو دوبارہ پیپلز پارٹی کا قلعہ بنائیں گے۔‘

ن لیگ اور پی پی میں غیر اعلانیہ سمجھوتہ؟

تاہم سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ شاید پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اس حلقے کے حوالے سے کوئی ’غیر اعلانیہ سمجھوتہ‘ ہوا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سلمان غنی نے بتایا: ’اس حلقے سے مسلم لیگ ن کوئی مضبوط امیدوار سامنے نہیں لا رہی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں غیر اعلانیہ سمجھوتہ ہوا ہے۔ یہاں طاہر القادری کا بھی ووٹ بینک ہے اور پی ٹی آئی کا بھی موجود ہے، اگر وہ بلاول کو ووٹ دیں گے تو یہ حلقہ ایوانوں میں سب سے زیادہ موضوع بحث بن جائے گا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اس حلقے سے 2018 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو پانچ ہزار ووٹ ملے تھے، جو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیدوار سے بھی کم تھے۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار پرویز ملک جیت گئے تھے، پھر ان کی وفات کے بعد یہ نشست خالی ہوئی تو ضمنی الیکشن ہوا جس میں انہیں 36 ہزار ووٹ مل گئے، یہی وجہ ہے کہ بلاول کے لیے بھی اسی حلقے کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ لاہور میں ایک نسشت حاصل کر کے مسقتبل کے لیے پنجاب میں پیپلز پارٹی کا راستہ بنایا جائے۔‘

لاہور سے بلاول اور کراچی سے شہباز شریف کی سیٹ پر ڈیل کا کتنا امکان؟

اس سوال کے جواب میں سلمان غنی نے کہا کہ ’لاہور کے اس حلقے، جو اب این اے 127 میں تبدیل ہو گیا ہے، سے کئی انتخابات میں مسلم لیگ ن ہی کامیاب ہوتی آئی ہے۔ اس بار یہاں سے منتخب ہونے والی پرویز ملک فیملی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اب وحید عالم، نصیر بھٹہ یا عطا تارڑ کو ٹکٹ جاری کرنے پر غور ہو رہا ہے۔

’مسلم لیگ ن کی اس حلقے میں ٹکٹ جاری کرنے کے معاملے میں غیر سنجیدگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلاول کو لاہور جبکہ شہباز شریف کو کراچی سے جتوانے کا دونوں جماعتوں میں کوئی خفیہ معاہدہ ہوا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس حلقے میں آرائیں برادری کے ووٹ سب سے زیادہ ہیں۔ اگر مسلم لیگ ن یہاں سے اسی برادری یا یہاں کے پاپولر امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیتی تو ایوانوں میں اسی حلقے کا چرچا ہوگا۔ مسلم لیگ ن کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے امیدوار جو بھی ہو لیکن یہاں سے بلاول کے لیے انتخاب جیتنا مشکل ضرور ہوگا۔‘

دوسری جانب اسلم گل کہتے ہیں کہ ’پیپلز پارٹی پہلے بھی لاہور اور پنجاب میں اکثر نشستوں پر امیدوار میدان میں اتارتی ہے۔ اس بار پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کو لاہور سے میدان میں اتار کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہاں اب بھی ہم عوام کے ساتھ ہیں۔ پارٹی عوامی خدمت کے تحت اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں سنجیدہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہمیں ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ شہباز شریف کو کراچی سے اور بلاول کو لاہور سے جتوانے کا دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان کوئی معاہدہ طے پایا ہے۔ ہم اپنا الیکشن لڑ رہے ہیں اور یہاں انتخابی مہم کی قیادت بھی خود ہمارے چیئرمین صاحب کر رہے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست