ایک چرواہے کے شرمناک تجربات

جب برادری میں کسی غمی خوشی کی وجہ سے بزرگ مصروف ہو جاتے تو وہ دن ہم چچا زاد بھائیوں کے لیے روزِ عید ہوتا کیونکہ ریوڑ چرانے کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر آ جاتی۔

پنجابی میں ریوڑ کو ’اَجڑ‘ اور اس کے چرواہے کو ’آجڑی‘ کہتے ہیں(پکسا بے) 

فرصت نہیں ملتی صاحب، ورنہ چراگاہ کے گھنے درختوں کی چھاؤں اب بھی ماضی کے اِس چرواہے کواپنی مہرباں آغوش میں لینے کوبے تاب رہتی ہے۔

اگرکبھی تیزرفتارزندگی سے چند لمحے چُرا کراس آغوش میں جا آنکھیں موند لی جائیں توگزرے وقتوں کے اٹھتے دھوئیں سے سادہ اورمحدود زندگی کی بڑی دلفریب تصویریں اُبھرتی ہیں۔

ایک تصویر میں نظرآتا ہے کہ چکوال کے ان پسماندہ دیہات میں لوگ گزراوقات کے لیے بھیڑ بکریوں کے بڑے بڑے ریوڑ پالتے تھے۔ خود ہمارے گھر بھی ایک بڑا ریوڑ تھا، جسے چچا جان چرانے کے لیے صبح چراگاہ میں لے جاتے اور شام ڈھلے واپس آتے ۔

جب برادری میں کسی غمی خوشی کی وجہ سے بزرگ مصروف ہو جاتے تو وہ دن ہم چچا زاد بھائیوں کے لیے روزِ عید ہوتا کیونکہ ریوڑ چرانے کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر آ جاتی۔

ایک تو سکول سے چھٹی، اوپر سے سارا دن پکنک، سبحان تیری قدرت۔ ہم لوگ صبح دیسی گھی کے پراٹھوں کا ناشتہ کر کے روٹی، اچار اور لسی پر مشتمل اپنا پُرتکلف لنچ اٹھاتے، اپنی اپنی ڈانگیں سنبھالتے اور باڑے سے ریوڑ کو نکال کر اسے ہانکتے جنگل کی طرف چل پڑتے۔

دن بھر ریوڑ چراتے، بیری کے درختوں پرچڑھ کر بیرکھاتے، ٹاہلی کے سائے میںلنچ کرتے اور شام کو واپسی کا قصد کرتے۔ آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ پنجابی میں ریوڑ کو ’اَجڑ‘ اور اس کے چرواہے کو ’آجڑی‘ کہتے ہیں۔

آجڑی کے متعلق عمومی تاثر یہ ہے کہ چونکہ اس کی زندگی کا غالب حصہ جنگلوں اور چراگاہوں کی نذر ہوتا ہے اور دنیا کی ہوا اسے کم ہی لگتی ہے، لہذا یہ سادہ لوح اور بے وقوف ہوتا ہے مگر جانوروں کی نفسیات پر دسترس رکھتا ہے۔

اگر آپ اِس عاجزکو مکمل آجڑی کا درجہ نہیں دینا چاہتے تو پارٹ ٹائم یا نیم چرواہا ہی سمجھ لیں مگر براہِ کرم اس ادنیٰ گڈریے کی اس تحقیق پر آنکھیں بند کر کے یقین فرما لیں کہ بھیڑ بکریوں میں کوئی شعور وعور نہیں ہوتا اور آجڑی انہیں جس طرف ہانک دے، یہ چل پڑتی ہیں۔ اگرکسی ریوڑکا چرواہا ان گھڑ اورنااہل ہے تو پھربھیڑبکریوں کا اللہ ہی حافظ۔               

ہمارے ریوڑ میں بے شعور بھیڑ بکریوں کے علاوہ بڑھے ہوئے پیٹوں اور نوک دار سینگوں والے بڑے بڑے متکبر بکرے اور چَھترے بھی تھے۔ بظاہر یہ ریوڑ کا حصہ تھے مگر رہن سہن، خوراک اور عادات و خصائل میں باقی ریوڑ سے یکسر مختلف۔

ریوڑ میں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی مگر بھیڑ بکریاں جتنی فرماں بردار تھیں، یہ بکرے اتنے ہی خود سر اور بد معاش واقع ہوئے تھے ۔

بھیڑ بکریوں کو چرتا دیکھ کر استحصالی بکروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے تھے، جہاں یہ بیچاری کسی ہری جھاڑی پر لپکتیں، بکرے انہیں ٹکریں مار کر بھگا دیتے اور ان کا حصہ بھی خود کھا جاتے۔

خدا جانے ان کے پیٹ کتنے بڑے تھے جو بھرتے ہی نہیں تھے، جبکہ باقی ریوڑ کو اکثر روکھی سوکھی گھاس پر گزارا کرنا پڑتا۔ عید قرباں پران چھتروں کوقربان نہیں کیا جاتا تھا۔

اس مبارک موقع پر بھیڑ بکریوں ہی میں سے کسی کو اپنی خدمات پیش کرنا پڑتیں۔ اسی طرح جب گھر میں کوئی مالی ضرورت آ پڑتی تو انہی مظلوموں میں سے دوچار دانے قصائی کو فروخت کر کے پوری کی جاتی۔ شادی بیاہ کی دعوتوں میں بھی بھیڑ بکریاں، بکروٹے اور لیلے ہی ذبح ہوتے مگر بڑھے ہوئے پیٹوں والے یہ خطرناک بکرے صاف بچ نکلتے۔

بڑے سینگوں والے بدمعاش بکروں کے رویے سمجھنے کے لیے ایک اور دل خراش منظر کا ذکر بھی ضروری ہے۔ گرمیوں میں ریوڑ کے لیے کھلے میدانوں میں اوپن ایئر باڑے بنائے جاتے تھے۔

بھیڑیا اکثر رات گئے شکار کے لیے ان باڑوں پر حملہ آور ہوتا۔ آپ یقین فرمائیں ان مواقع پر بھی کبھی کوئی متکبربکرا کام نہیں آیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے پاس بلٹ پروف گاڑیاں یا کنٹینر تھے، البتہ یہ چھترے خطرے کی بُو سونگھتے ہی بھیڑ بکریوں کے پیچھے چھپ جاتے اور انہیں اپنے سینگوں کے زور پر دھکیل کر آگے کر دیتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھیڑیا خوف سے چیختے چلاتے ریوڑ میں سے کسی بکری یا لیلے کی گردن کو اپنے نوکیلے دانتوں میں دباتا اور اسے اٹھا کر بھاگ جاتا۔

جون، جولائی میں گڈریے بے رحمی سے بھیڑ بکریوں کو بڑی بڑی قینچیوں سے مونڈ ڈالتے اور ان کے بالوں سے جولاہے ہمیں گرم چادریں اور کمبل بنا کر دیتے۔

جب کسی بھیڑ، بکری یا گائے کو ذبح کیا جاتا تو گاؤں کے موچی تیزدھارچُھرے سے اس کی کھال اتارتے اوراس کے جوتے بنا کر آجڑیوں کو دیتے۔ چرواہے کے عزیزوں میں ان کی کھال اورگوشت کے حصے بخرے پراکثرجھگڑا ہوتا مگر خود ان بے زبانوں کو پرواہ نہیں تھی کہ ان کو ٹنڈ منڈ کر کے ان کے بالوں سے کمبل بنائے گئے ہیں یا ان کی کھال سے جوتے، ان کے گوشت کے تکے بنائے گئے ہیں یا قورمہ، انہیں چروہے نے سالم روسٹ کرکے خود کھایا ہے یا دوستوں میں تقسیم کیا ہے۔                                                                            

خاکسارکا ایک اورافسوس ناک تجربہ یہ ہے کہ بھیڑ بکریوں کوجہاں اپنے حقوق کا ادراک نہیں ہوتا، وہاں ان کے پاس کبھی اپنا آجڑی خود منتخب کرنے کا اختیاربھی نہیں رہا۔

جس کے ہاتھ میں ڈنڈا آیا، وہی ان کا چرواہااورجوبھی طاقت یادولت کے زورپران کی گردن پرسوارہوا،وہی ان کامالک ٹھہرا۔

گڈریے بدلتے رہے مگربھیڑ بکریوں کے حالات کبھی نہیں بدلے۔ان کے لیے سرمایہ افتخاردوہی جملے رہے ہیں ’اس گھرکے لیے بھیڑبکریوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں‘ اور’بھیڑبکریاں اس گھرکی خاطر قربانیاں دینے کوتیاررہیں‘۔                                             

یہ حقیر آجڑی بھیڑبکریوں کی نفسیات کی مزید وضاحت یوں کرے گا اگر چرواہاان کا خون نچوڑلے، انہیں کسی کے ہاتھ بیچ دے،انہیں حالات میں تبدیلی کاجھانسہ دے کران کااستحصال کرے،بڑے پیٹوں والے بکرے ان کے حصے کا چارہ کھا جائیں، کوئی جلاد انہیں تفتیش کے نام پرتشدد کرکے ہلاک کردے، کسی بھیڑکوالٹا لٹکا کر اس پربدترین ظلم کرے، کوئی باؤلاحیوان کسی بکری کے معصوم بچے کومسل کررکھ دے، جنسی درندوں کاکوئی گروہ کسی کمسن بھیڑسے درندگی کے بعد اسے ماردے یا بدمعاش چَھتروں کا کوئی جرگہ کسی بکری کو کاری کرکے موت کے گھاٹ اتاردے تویہ اپنی برادری پران مظالم کے خلاف تھوڑی دیراحتجاجی اندازمیں منمنا کر خاموش ہوجاتی ہیں مگرکبھی بھی یکجاہوکرکسی ظالم کا گریباں نہیں پکڑتیں۔                                                                  

المختصر! یہ نیم چرواہا اور نیم قلم کار اپنے شرم ناک تجربات بالا کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ قبل از مسیح کا تاریک دور ہو یا اکیسویں صدی کا ڈیجیٹل عہد، اس کرۂ ارض پرجہاں جہاں بھی بھیڑ بکریاں پائی جاتی ہیں،ان کے مخدوش حالات میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔              

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ