وزیراعلیٰ کا عہدہ مریم کی انتظامی صلاحیتوں کے لیے چیلنج؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نواز شریف کی جانب سے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیے جانے کی حکمت عملی سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں مستقبل میں مسلم لیگ ن کا سیاسی وارث بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز 22 جنوری 2024 کو خیبر پختونخوا کے شہر مانسہرہ میں ایک انتخابی مہم کے جلسے کے دوران حامیوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی ہیں (عامر قریشی/ اے ایف پی)

پاکستان کی سیاست میں خواتین کا کردار مردوں کے مقابلے میں بہت کم رہا ہے۔ ملک کی پہلی اور اب تک کی واحد وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔ ان کے بعد پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب کی پہلی خاتون ممکنہ وزیراعلیٰ کا اعزاز مریم نواز کو حاصل ہوگا۔

مسلم لیگ ن کو حالیہ انتخابات میں پنجاب سے سادہ اکثریت حاصل ہو چکی ہے اور پارٹی کی جانب سے مریم نواز کو باقاعدہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا امیدوار بھی نامزد کر دیا گیا ہے، لہذا ان کے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کا بھی قوی امکان ہے۔

اگرچہ مریم نواز مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی صاحبزادی ہیں لیکن اتنے بڑے عہدے پر ان کا یہ پہلا تجربہ ہوگا۔ دوسری جانب چونکہ وہ پہلی مرتبہ رکن قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئی ہیں، اس لیے تجزیہ کار ان کی کارکردگی کو مسلم لیگ ن کی بقا کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں۔

ان کے والد نواز شریف، چچا شہباز شریف اور کزن حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر کام کر چکے ہیں، لہذا شریف خاندان سے وہ چوتھی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کی امیدوار ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سینیئر رہنماؤں کو کابینہ میں شامل کر کے اور اپنے بڑوں کی رہنمائی سے وہ کامیابی سے صوبے کا نظام چلانے کی اہلیت رکھتی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں بہت سے چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔

انتظامی چیلنجز

سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کو سب سے پہلے انتظامی صورت حال کا چیلنج درپیش ہوگا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’گذشتہ کئی سالوں سے پنجاب میں گڈ گورننس یعنی بہتر انتظامی صورت حال نہ ہونے پر عوام کو مشکلات کا سامنا ہے، البتہ شہباز شریف اور پرویز الٰہی کے دور میں نظام قدرے بہتر تھا، لہذا مریم نواز کے لیے صوبے کو سب سے پہلے انتظامی لحاظ سے بہتر کرنا ہوگا، جو ان کے والد اور چچا کی مدد سے زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’مریم نواز نے اپنے والد کے ساتھ ہونے والی انتقامی کارروائیوں کے دوران سخت حالات کا سامنا کیا۔ سیاسی طور پر مخالفین کے سامنے مزاحمت کے لحاظ سے بھی پارٹی ان کی معترف رہی ہے۔ پھر کارکنوں میں بھی وہ پسندیدہ ہیں، اس لیے ان کے لیے کام کرنا قدرے آسان ہوگا لیکن انہیں سیاسی سے زیادہ جمہوری انداز اپنانا ہوگا۔‘

بقول وجاہت: ’مریم نواز کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد یہ اعزاز حاصل ہونے جا رہا ہے کہ وہ حکمرانی کریں گی۔ جس طرح بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم بن کر ثابت کیا کہ وہ مرد اکثریتی ایوانوں میں کامیابی سے حکومت کرتی رہیں، اسی طرح امید ہے مریم نواز بھی پنجاب کے ایوانوں میں کامیاب حکمران بنیں گی۔‘

تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مریم نواز کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب نامزدگی سے فی الحال ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ وہ آتے ہی خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں گی۔

بقول: وجاہت مسعود ’کیونکہ ماضی میں عورتوں کے حقوق یا معاشرتی آزادی کے حوالے سے جدوجہد میں ان کا کوئی قابل ذکر کردار دکھائی نہیں دیتا۔‘

دوسری جانب تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پارٹی کی چیف آرگنائزر کے طور پر کام کرنے والی مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ بھی بہتر انداز میں نبھائیں گی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’مریم نواز کو پارٹی قائد نواز شریف نے انتخابات سے قبل ہی مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر بنا دیا تھا۔ انہوں نے جماعت کو منظم کرنے اور متحد کرنے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ اب وزیراعلیٰ بن کر وہ صوبے کا نظام بھی بہتر انداز میں چلا سکیں گی، لیکن انہیں اپنے ساتھ پنجاب سے کامیاب ہونے والے سینیئر رہنماؤں کو کابینہ میں ضرور رکھنا پڑے گا۔‘

پنجاب سے کامیاب ہونے والے مسلم لیگ ن کے سابق صوبائی وزرا میں خواجہ سلمان رفیق، عمران نذیر، مجتبی شجاع الرحمٰن و دیگر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ مخصوص نشستوں پر عظمیٰ بخاری، بشریٰ انجم بٹ، حنا پرویز بٹ و دیگر کو مریم نواز کے قریبی سمجھا جاتا ہے، لہذا وہ کابینہ میں تجربہ کار اور بااعتماد اراکین کو شامل کرنے کا امکان رکھتی ہیں۔

مزاحمتی سے جمہوری سیاست

سلمان غنی کہتے ہیں کہ مریم نواز پر صوبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے مسقبل کا بھی انحصار ہوگا کیونکہ ’نواز شریف بھی وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد وزیراعطم بنے اور شہباز شریف بھی وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر کامیابی کے بعد جماعت کو وفاقی سطح پر برقرار رکھتے ہوئے وزیراعطم بنے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’نواز شریف نے خود وزارت عظمیٰ کا امیدوار بننے کی بجائے شہباز شریف کو نامزد کیا ہے جبکہ مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ اس حکمت عملی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مریم نواز کو مستقبل میں مسلم لیگ ن کا سیاسی وارث بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ماضی کی طرح سیاسی کردار کو جمہوری انداز میں بدلنا ہوگا۔ اس بار ان کی مخالف جماعت سے بڑی تعداد میں اپوزیشن ایوان میں آ رہی ہے، جن کا ٹارگٹ بھی مریم نواز کی کاکردگی کو متاثر کرنا ہوگا، اس لیے مریم کو انہیں جمہوری انداز سے ڈیل کرنا ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جس طرح مریم نواز نے اپنے والد کے خلاف کارروائیوں میں پہلے اپنی والدہ کلثوم نواز کے ساتھ مل کر مشکل حالات کا سامنا کیا۔ پھر اپنے والد کے ساتھ مل کر قید بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، ایسے میں انہیں سیاسی اور جمہوری داؤ پیچ سمجھ آگئے ہوں گے۔‘

دوسری جانب وجاحت مسعود کہتے ہیں کہ ’سیاست کے میدان میں مریم نواز کے پاس غیر معمولی حوالہ یہ ہے کہ وہ نواز شریف کی صاحبزادی ہیں۔ یہ حوالہ ان کے لیے آسانیاں بھی پیدا کرے گا اور مخالفین کے سامنے شدید مخالفت کا موجب بھی ہوگا۔ اس لیے انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بھی اپنے بڑوں کی طرح مشکلات اور مخالفین کا سامنا جمہوری انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو مریم نواز پر وزیراعظم ہاؤس سے الگ میڈیا ہاؤس چلانے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ اب وزارت اعلیٰ جیسے بڑے عہدے پر کام کرتے ہوئے انہیں ایسے اقدامات سے بھی اجتناب کرنا ہوگا، جو ان کی پوزیشن کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا موجب بن سکتے ہوں۔‘

وجاہت مسعود کے مطابق: ’مریم نواز کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ کس طرح بہترین کارکردگی کی بنیاد پر وہ اس قابل بن سکتی ہیں کہ وزیراعلیٰ سے مستقبل میں پارٹی کو کامیابی دلوا کر وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گی۔ اگر وہ ناکام ہوئیں تو ان کے ساتھ ان کی پارٹی کا مستقبل بھی تاریک ہونے کا خدشہ ہوگا۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر