'آپ نے تو کچھ نہیں کرنا، ہمیں ہی ایل او سی توڑنے دیں'

وزیر اعظم عمران خان کے مظفرآباد میں خطاب سے کئی کشمیری نوجوان نا خوش ہیں۔ ان کے بقول وہ تو سمجھ رہے تھے وزیر اعظم آج لائن آف کنٹرول توڑنے کا اعلان کریں گے مگر وہ کہہ رہے ہیں جب تک میں نہ کہوں آپ کچھ نہ کریں۔

7

مظفرآباد شہر کے یونیورسٹی گراؤنڈ میں دس ہزار لوگوں کے بیٹھنےکا انتظام کیا گیا تھا تاہم اندازہ ہے کہ پندرہ سے بیس ہزار لوگ اس جلسے میں شریک ہوئے۔ ( فوٹو: جلال الدین مغل)
 

وزیر اعظم پاکستان عمران خان جمعہ کو 'کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی' کے لیے ہونے والے جلسے سے خطاب کے لیے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد پہنچے۔  وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان کا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یہ پہلا عوامی خطاب تھا جو ان کے انتخاب کے لگ بھگ  ایک سال بعد وقوع پذیر ہوا۔

مظفرآباد شہر کے وسط میں واقع یونیورسٹی گراؤنڈ میں سجے پنڈال میں منتظمین کے مطابق دس ہزار لوگوں کے بیٹھنےکا انتظام کیا گیا تھا تاہم اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پندرہ سے بیس ہزار لوگ اس جلسے میں شریک ہوئے۔

اگرچہ اس جلسے کا مقصد کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور دنیا کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کرنا بتایا گیا تھا، تاہم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پی ٹی آئی کی شاخ نے اسے اپنا پاور شو ثابت کرنے کے لیے بھی کافی تگ و دو کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مظفرآباد کے تمام چوک چوراہوں میں پی ٹی آئی کے مقامی قائدین اور کارکنوں کی تصویروں والے بینر اور پینا فلیکس آویزاں تھے۔ جلسہ گاہ میں پی ٹی آئی کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت اور جموں وکشمیر لبریشن سیل نامی سرکاری ادارے کی جانب سے مختلف بینرز  بھی آویزاں تھے جن پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے نعرے درج تھے۔

پنڈال میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے جھنڈوں کے بیچوں بیچ اکا دکا پی ٹی آئی کے جھنڈے بھی نظر آ رہے تھے۔

لوگوں کو پنڈال تک لانے کے لیے پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کے علاوہ پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر کی حکومت بھی کافی سرگرم رہی۔

کئی سرکاری محکموں نے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر کے سرکاری ملازمین کو جلسے میں شامل ہونے کی ہدایت کی۔ اگرچہ محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت سمیت بعض دوسرے سرکاری اداروں نے بعد میں اپنے جاری کردہ حکم نامے منسوخ کر دیے تاہم آزاد جموں وکشمیر یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی اداروں نے اپنے طلبہ و طالبات اور سٹاف کو جلسے میں لانے کے انتظامات کیے۔

خواتین میں زیادہ تعداد طالبات کی تھی

جلسے میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شریک تھی جن میں ایک واضح اکثریت یونیفارم میں ملبوس سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات کی تھی۔

جموں و کشمیر میڈیکل کالج میں سال سوم کی ایک طالبہ ثوبیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس توقع کے ساتھ جلسے میں آئی ہیں کہ آج وزیر اعظم پاکستان کشمیر کی صورت حال پر قوم کو کوئی واضح حکمت عملی دیں گے۔

ثوبیہ کے بقول: سری نگر میں میرے جیسی کئی طالبات پچھلے چالیس دن سے سکول اور کالج نہیں جا سکیں۔ ’ہم اگر ایک دن کالج نہ جائیں تو پڑھائی کا کتنا حرج ہوتا ہے یہ ہم سے بہتر کون جان سکتا ہے۔ ہم سب کو ان کی مدد کرنی چاہیے۔ اور میرا خیال ہے کہ یہاں موجود سبھی لوگ ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘

جمعہ کی نماز کے فوراًبعد جلسہ گاہ میں لوگوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔  تاہم پنڈال بھرنے میں لگ بھگ دو گھنٹے کا وقت لگا۔ مظفرآباد کے علاوہ قریبی اضلاع وادی نیلم اور وادی جہلم سے بھی لوگ قافلوں کی صورت میں جلسے میں شریک ہوئے ان میں سے بیشتر قافلے پی ٹی آئی کے کارکنوں پر مشتمل تھے۔

'اظہار یک جہتی بھی کریں گے، سیلفی بھی بنائیں گے'

سکول یونیفارم میں ملبوس کشمیر کے جھنڈے اٹھائے طلبا کے ایک گروپ سے جب میں نے سوال کیا کہ وہ آج کے جلسے میں کیوں شامل ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا پروگرام تو کرکٹ کھیلنے کا تھا مگر اساتذہ نے بتایا کہ جلسے میں ضرور شریک ہونا۔ اب آ گئے ہیں تو دیکھتے ہیں وزیر اعظم صاحب کیا کہتے ہیں۔ چلیں شاید اسی بہانے عمران خان کو قریب سے دیکھ لیں۔'

بٹگرام سے اپنے دوستوں کے ساتھ جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے تنویر احمد نامی نوجوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'ہم 20، 25 دوست اکٹھے آئے ہیں، اور لوگ بھی آئے ہیں، مانسہرہ سے بھی آئے ہیں، ایبٹ آباد سے بھی آئے ہیں اور ہم بٹگرام سے آئے ہیں۔ ہم سب اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے آئے ہیں۔ موقع ملا تو شاہد آفریدی کے ساتھ سیلفی بھی بنا لیں گے۔ سنا ہے وہ بھی اس جلسے میں آ رہے ہیں۔'

کرکٹر شاہد آفریدی کے علاوہ اداکار ہمایوں سعید، جاوید شیخ، فاخر محمود، حریم فاروق، مایا علی، گلوکارشہزاد رائے اور ساحر علی بگا کے علاوہ کھیلوں اور شوبز سے وابستہ کئی اہم شخصیات جلسہ میں موجود تھی تاہم ان میں سے بیشتر سٹیج تک محدود رہے۔

'کشمیر کی آزادی بندوق سے ممکن ہے'

وزیر اعظم کے خطاب سے پہلے اور خطاب کے دوران جلسے میں شریک نوجوان کشمیر کی آزادی کے حق میں اور بھارت مخالف نعرے لگاتے رہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے چھوٹے چھوٹے گروہ جلسہ شروع ہونے سے قبل سیاسی نعرہ بازی کرتے رہے تاہم جلسے کے آغاز میں ہی انہیں خاموش کروا دیا گیا۔

ہم کیا چاہتے ہیں آزادی اور کشمیر بنے گا پاکستان جیسے روایتی نعروں کے علاوہ جلسے کے شرکا سری نگر سے حالیہ دنوں میں برآمد ایک نعرے کو معمولی ردو بدل کے ساتھ بار بار دہرا رہے تھے۔ وہ نعرہ ہے ' کشمیر فریڈم، ون سلوشن، گن سلوشن گن سلوشن' یعنی کشمیر کی آزادی کا ایک ہی حل ہے اور وہ بندوق کے ذریعے ممکن ہے۔

یہ نعرہ لگانے والے ایک نوجوان تنزیل احمد سے جب پوچھا گیا کہ کیا مسئلہ کشمیر کا حل بندوق کے ذریعے ممکن ہے؟ تو اس کا جوابی سوال تھا کہ مذاکرات سے ہم نے کیا حاصل کر لیا؟ 'لڑتے لڑتے مریں گے تو شہید تو ہوں گے۔'

وزیر اعظم کے خطاب کے بعد تنزیل احمد اور ان کے ساتھیوں سے جب دوبارہ سوال کیا کہ کیا وزیر اعظم کا خطاب ان کی توقعات کے مطابق تھا تو انہوں نے بیک زبان کہا کہ ہم تو سوچ رہے تھے کہ وزیر اعظم آج ایل او سی توڑنے کا اعلان کریں گے۔ مگر وہ کہہ رہے ہیں آپ انتظار کریں میں آپ کو بتاوں گا ایل او سی کب توڑنی ہے۔ ہم وزیر اعظم صاحب سے پوچھتے ہیں جناب آپ کب بتائیں گے؟ ہمارے بھائی ڈیڑھ ماہ سے محاصرے میں ہیں۔ آپ نے کچھ نہیں کرنا تو ہمیں اجازت دے دیں۔

آزادی پسندوں اور سول سوسائٹی کا احتجاج

جلسہ گاہ میں اس وقت کچھ دھکم پیل ہوئی جب ایک کونے میں خود مختار کشمیر کی حامی جماعتوں کے درجن بھر کارکنوں نے کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کے حق میں بھی نعرے بلند کیے تاہم پولیس اور انتظامیہ نے ان نوجوانوں کو فوراً ہی جلسہ گاہ سے نکال لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے چھ نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں تاہم پولیس حکام نے ان گرفتاریوں کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔

مظفرآباد میں 'دریا بچاؤ مظفرآباد بچاؤ تحریک' نامی سول سوسائٹی کے ایک سرگرم گروپ نے وزیر اعظم کے خطاب کے دوران کالے غباروں سے بندھا ایک بینر ہوا میں بلند کیا جس پر تحریر تھا Say No to River Diversion

یہ گروپ نیلم جہلم اور کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے مظفرآباد سے بہنے والے دریائے نیلم اور دریائے جہلم کا رخ موڑنے کے خلاف کئی ماہ سے احتجاج کر رہا ہے۔

جلسہ میں صرف چار تقریریں

جلسہ سے وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، اور وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور نے خطاب کیا۔  وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر ریلوے شیخ رشید،  معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان،علیم خان اور دیگر اہم شخصیات سٹیج پر موجود رہیں تاہم کسی نے جلسہ سے خطاب نہیں کیا۔

سکیورٹی کے سخت انتظامات کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد پنڈال میں داخل نہیں ہو سکی۔ سینکڑوں لوگوں نے ارد گرد کی عمارتوں کی چھتوں پر چڑھ کر وزیر اعظم کی تقریر سننے کی کوشش کی اور کئی ایک پنڈال میں داخل ہونے کے لیے پولیس سے الجھتے رہے۔ ایسے ہی ایک نوجوان عرفان علی نے جلسہ گاہ سے واپسی پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ' پورا دن نعرے مار مار کر گلا خشک ہو گیا۔ فائدہ کیا ہوا، عمران خان کو دیکھ بھی نہیں سکے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان