کس کی اونچی اڑان اور کس نے کیا مایوس؟

جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت تک کافی حد تک یہ  واضح ہو چکا ہو گا کہ پلے آف میں نہ پہنچنے والی دوسری ٹیم کون سی ہو گی یا ہو سکتی ہے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کے اعظم خان 7 مارچ 2024 کو راولپنڈی کے راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں کراچی کنگز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان پاکستان سپر لیگ ٹوئنٹی 20 کرکٹ میچ کے دوران باؤنسر سے بچ رہے ہیں (اے ایف پی)

ملتان سلطانز پاکستان سپر لیگ کے پلے آف میں پہنچنے والی پہلی ٹیم اور لاہور قلندرز پلے آف سے باہر ہونے والی پہلی ٹیم بن چکی ہے اور جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت تک کافی حد تک یہ واضح ہو چکا ہو گا کہ پلے آف میں نہ پہنچنے والی دوسری ٹیم کون سی ہو گی یا ہو سکتی ہے؟

یہ تحریر مصنف کی زبانی یہاں سنیے:

 لاہور قلندرز کے لیے یہ پی ایس ایل غیرمتوقع طور پر بہت مایوس کن رہی۔ غیرمتوقع اس لیے کہ وہ نہ صرف دفاعی چیمپیئن تھی بلکہ دو سال سے  ٹائٹل اپنے نام کرتی آرہی تھی لیکن اس سیزن میں وہ پچھلے دو سیزنوں سے قطعاً مختلف ٹیم نظر آئی۔

لاہور قلندرز کی اس سیزن میں مایوس کن کارکردگی کے اہم عوامل میں فخر زمان کا آؤٹ آف فارم ہونا، ڈیوڈ ویزا کا ان فٹ ہو جانا، شاہین آفریدی کی ملی جلی کارکردگی، حارث رؤف اور زمان خان  کا غیرمؤثر ثابت ہونا، سکندر رضا جیسے آل راؤنڈر کو  صحیح جگہ استعمال نہ کرنا، گذشتہ سیزن میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے عبداللہ شفیق کا بیٹنگ آرڈر نیچے کرنا اور سب سے اہم بات راشد خان کا غیرحاضر رہنا شامل ہیں۔ ان سب باتوں کے بعد آپ سوچ سکتے ہیں کہ لاہور قلندرز کے پاس باقی کیا رہ گیا ہو گا۔

جس ٹیم میں آئی ایل ٹی ٹوئنٹی لیگ میں سب سے زیادہ 313 رنز اور 13 وکٹیں لے کر بہترین کرکٹر کا ایوارڈ پانے والے  سکندر رضا ہوں تو اس ٹیم کو حریف ٹیموں پر نفسیاتی برتری حاصل ہو جائے  لیکن پی ایس ایل میں انہیں صحیح استعمال نہیں کیا گیا، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے پانچ میچوں میں انہیں صرف نو اوورز بولنگ کو  ملے اور  جب بیٹنگ کی بات آئی، تو ان سے اوپر دوسرے بیٹسمینوں کو بھیجا جاتا رہا جو سمجھ سے باہر ہے۔

لاہور قلندرز کے چیف آپریٹنگ افسر ثمین رانا سے میری بات ہوئی تو وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ سکندر رضا کو صحیح استعمال نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ سکندر  رضا کو مواقع نہیں دیے گئے لیکن ان سے وہ پرفارمنس نہیں ہو سکی، جس کا سکندر رضا کو بھی احساس تھا۔

ثمین رانا نے لاہور قلندرز کی مایوس کن کارکردگی کی وہی وجوہات بیان کیں جو میں نے اوپر تحریر کی ہیں۔ تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ ’ہمیں دس دنوں میں چھ میچز کھیلنے کو ملے تھے۔ اس بار  قسمت نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ سوائے ایک میچ کے جو یک طرفہ رہا دیگر پانچ میچوں میں ہم نے فائٹ کی۔‘

شاہین شاہ آفریدی کی کپتانی پر بھی بہت بات ہو رہی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ بات بری لگی ہے کہ شاہین آفریدی کی کپتانی پر تنقید اس لیے مناسب نہیں کہ اس سے ان کی پاکستانی ٹیم کی کپتانی پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ  لاہور قلندرز کی کپتانی اور پاکستانی ٹیم کی کپتانی کا موازنہ درست نہیں ہے۔

اس ضمن میں میں یہی کہوں گا کہ یہ لوگ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسی پی ایس ایل کے دو  ٹائٹلز جیتنے کے بعد ہی شور مچا تھا کہ شاہین آفریدی کو پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان ہونا چاہیے اور اس میں لاہور قلندرز کے ہیڈ کوچ عاقب جاوید پیش پیش تھے۔ لہذا اگر اس پی ایس ایل میں شاہین کی  کپتانی پر سوالات اٹھے ہیں اور تنقید ہوئی ہے تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آنا چاہیے۔

لاہور قلندرز کی کارکردگی کا واحد مثبت پہلو  وان ڈر ڈوسن اور صاحبزادہ فرحان کی بیٹنگ رہی۔

اگر ہم ملتان سلطانز کی بات کریں تو اس کی بیٹنگ لائن میں محمد رضوان، ریزا ہینڈرکس، عثمان خان  اور ڈاوڈ ملان نمایاں پرفارم کر رہے ہیں۔

عثمان خان نے پچھلے پی ایس ایل میں تیز ترین سنچری بنائی تھی۔ اس بار بھی ان کی جانب سے وہی جھلک دکھائی دی ہے۔ پاکستان میں اپنے مستقبل سے مایوس ہونے کے بعد اب وہ یو اے ای میں کرکٹ کھیل رہے ہیں، لیکن پاکستان سپر لیگ کو اپنی جارحانہ بیٹنگ سے گرما رہے ہیں۔

پاکستان سپر لیگ ہمیشہ سے فاسٹ بولرز کی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے پہچانی جاتی رہی ہے۔ اس مرتبہ ملتان سلطانز کے تیز بولر محمد علی نے اپنی بولنگ سے سب کو متاثر کیا ہے۔ نسیم شاہ انجری کے بعد واپس آئے ہیں اور خوب بولنگ کر رہے ہیں لیکن اس مرتبہ لیگ اسپنرز کا جادو بھی سر چڑھ کر بولا ہے۔

ملتان سلطانز کے اسامہ میر، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ابرار احمد، اسلام آباد یونائٹڈ کے شاداب خان اور پشاور زلمی کے عارف یعقوب نمایاں رہے ہیں۔ شاداب خان نے بیٹنگ اور کپتانی میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔

نوجوان کھلاڑیوں میں فاسٹ بولر حنین شاہ نے نسیم شاہ کا بھائی ہونے سے ہٹ کر خود اپنی شناخت کرائی ہے۔ وہ انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

صائم ایوب کا ٹیلنٹ بھی خوب چمکا ہے ان کی جارحانہ بیٹنگ اور بابر اعظم کے ساتھ اوپننگ پارٹنرشپ کمال کی رہی۔ لیکن  انہیں مزید تحمل مزاجی  کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خواجہ نافع کی ایک اننگز کے بعد وہی شور مچا جو ہمیشہ ہم سنتے ہیں کہ اس ٹیلنٹ کو فوراً پاکستانی ٹیم میں لے جایا جائے، جو میرے خیال میں کسی طور مناسب بات نہیں۔ ابھی انہیں مزید ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے دیں پھر دیکھیں کہ ان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے کتنا دم خم ہے۔

اب کچھ ان کھلاڑیوں کا بھی ذکر ہوجائے جو اس پی ایس ایل میں اپنی مایوس کن کارکردگی سے یاد رہیں گے۔

ان کھلاڑیوں میں محمد نواز سرفہرست ہیں۔ یہ مایوسی صرف اسی پی ایس ایل میں نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ ہم  ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، ایشیا کپ، پچاس اوورز کے ورلڈ کپ اور نیوزی لینڈ کے دورے میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ اس پی ایس ایل کے پہلے آٹھ میچوں میں ان کے نام کے آگے صرف دو وکٹیں درج تھیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ چیف سلیکٹر وہاب ریاض اور ان کے ساتھی سلیکٹرز محمد نواز کی جگہ لیفٹ آرم اسپن کے کسی دوسرے آپشن کو بھی دیکھیں۔ اب یہی وقت ہے کہ مہران ممتاز اور عرفات منہاس جیسے نوجوان کھلاڑیوں پر اعتماد کیا جائے اور انہیں موقع دے کر مستقبل کے لیے تیار کیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عماد وسیم کے لیے بہت سے لوگوں کی رائے یہ رہی ہے کہ انہیں ریٹائرمنٹ ختم کرکے انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آنا چاہیے لیکن پی ایس ایل کے پہلے سات میچوں میں وہ صرف تین وکٹیں حاصل کر پائے۔

 شان مسعود کے لیے کراچی کنگز کی طرف سے پہلا سیزن خاصا مایوس کن رہا۔ اسی طرح شعیب ملک بھی سوائے ایک نصف سنچری کے کچھ بھی نہ کر سکے۔ کراچی کنگز کی بیٹنگ کو صرف پولارڈ ہی سہارا دیتے نظر آئے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی کپتانی سے ہٹائے جانے کے بعد سرفراز احمد بیٹنگ میں قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے لیکن دوسری جانب اگر ہم بابر اعظم کی کارکردگی کو دیکھیں تو پاکستانی ٹیم کی کپتانی چھوڑنے کے بعد وہ اپنی بیٹنگ پر مکمل فوکس کیے نظر آرہے ہیں، جس کی جھلک اس پی ایس ایل میں واضح نظر آئی ہے۔ رنز بنانے کا سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ شائقین کو بہترین بیٹنگ دیکھنے کو مل رہی ہے اور سب سے اہم بات انہوں نے اسٹرائیک ریٹ کے بارے میں بھی اپنے ناقدین کو خاموش کرا دیا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ