اوپن ہائمر کو آسکر ایوارڈ: فلم میں کیا خاص بات ہے؟

فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں امریکہ کی جانب سے ایٹم بم بنانے کے منصوبے سے منسلک کئی مخمصے دکھائے گئے ہیں جن کا کوئی آسان حل نہیں۔

پیر کی صبح صبح ’اوپن ہائمر‘ نے بہترین فلم کا اکیڈمی ایوارڈ جیت لیا۔ صرف یہی نہیں، اس فلم نے بہترین اداکار (کیلین مرفی)، بہترین معاون اداکار (رابرٹ ڈاؤنی جونیئر)، بہترین ہدایت کار (کرسٹوفر نولین)، بہترین موسیقی سمیت سات اعزازات اپنے نام کیے۔

اس فلم میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ اسے دنیا کے سب سے مشہور اور بااثر فلمی ادارے کی جانب سے اتنی پذیرائی ملی؟

اس سوال کا جواب دینے کے لیےہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ بڑی کہانیاں، چاہے وہ فلم کی شکل میں ہوں، ناول ہو یا کوئی اور آرٹ فارم، عمومی طور پر بڑے مخمصوں (dilemma) کے بارے میں ہوتی ہیں، یعنی ان کے کرداروں کو بڑے مسئلے درپیش ہوتے ہیں اور ان کا کوئی آسان حل نہیں ہوتا، اب یہ کردار پر منحصر ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔

فلم ’اوپن ہائمر‘ اس لیے بڑی ہے کہ اس میں ایک نہیں، کئی زبردست مخمصے دکھائے گئے ہیں اور کردار، خاص طور پر مرکزی کردار کیلین مرفی ان سے نمٹنے کی جدوجہد میں سرگرداں ہیں۔

باقی مخمصے تو اپنی جگہ (جن کا نیچے ذکر آئے گا) اس فلم کا مرکزی ایشو بہت بڑا ہے، بلکہ اتنا بڑا جتنا کسی فلم کا ہو سکتا ہے، یعنی پوری دنیا کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑا کوئی قضیہ ہو نہیں سکتا۔

مارٹن سکورسیزی کی فلم ’کلرز آف دا فلاور مون‘ کی ریلیز کے بعد بہت سے فلم کے ماہرین کو لگا تھا کہ اس سے کوئی دوسری فلم 2024 کا آسکرز نہیں جیت سکتی، لیکن ’اوپن ہائمر‘ دیکھ کر جذباتی ہمدردیاں دھری رہ گئیں، کیوں کہ ’فلاور مون،‘ چاہے وہ کتنی ہی اہم فلم کیوں نہ ہو، اس کا سکوپ ’اوپن ہائمر‘ کے مقابلے پر بہرحال محدود ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ’اوپن ہائمر‘ بڑے کینوس کی بڑی فلم ہے، جس کا نہ صرف دورانیہ عام فلموں سے طویل ہے (پورے تین گھنٹے!)، بلکہ اس میں کرداروں، کہانیوں اور واقعات کی بھی بھرمار ہے۔ موجودہ دور کے عام رواج کے برعکس کرسٹوفر نولین نے اسے ڈیجیٹل نہیں بلکہ فلم پر شوٹ کیا ہے، اور اس میں کمپیوٹر گرافکس کی بجائے اصل سپیشل ایفیکٹ استعمال کیے گئے ہیں۔

اس فلم میں دوسری جنگِ عظیم کا وہ حصہ دکھایا گیا ہے جس میں امریکہ اور جرمنی کے درمیان ایٹم بم بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ دونوں ملکوں کو خوف ہے کہ اگر دوسرے نے پہلے ایٹم بم بنا لیا تو وہ فوری طور پر جنگ جیت جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جرمنی نے ایٹم بم بنانے والی ٹیم کا انچارج مشہور طبیعات دان ہائزن برگ کو بنایا، جب کہ امریکہ نے اسی ہائزن برگ کے شاگرد رابرٹ جے اوپن ہائمر کو ایک بڑی ٹیم بنا کر اس کا سربراہ مقرر کر دیا اور خزانے کے منہ کھول دیے کہ جتنی مرضی خرچ آئے، جلد سے جلد ایٹم بم تیار کر لیا جائے، ورنہ ہٹلر نے پہلے بم بنا لیا تو جرمنی جنگ جیت جائے گا۔

امریکہ کے اس منصوبے کو ’مین ہیٹن پروجیکٹ‘ کا نام دیا گیا اور اس کا شمار انسانی تاریخ کے چند سب سے بڑے منصوبوں میں ہوتا ہے اور اس کا شمار اہرامِ مصر اور دیوارِ چین کی تعمیر جیسے منصوبوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ نولین نے اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے ’اوپن ہائمر‘ فلم کو فلمی دنیا کا بڑا پروجیکٹ بنا دیا تاکہ وہ اسے مین ہیٹن پروجیکٹ کے شایانِ شان قرار دیا جا سکے۔

فلم کی کہانی زیادہ تر امریکہ والے حصے پر مرکوز ہے جس میں اوپن ہائمر (جن کا کردار کیلین مرفی نے ادا کیا) اور ان کی ٹیم سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، ایٹم بم تیار کر لیا جائے۔

لیکن اسی دوران امریکی سائنس دانوں کو ایک زبردست مخصمے کا بھی سامنا ہے۔ ٹیم میں شامل بعض سائنس دان یہ خدشہ ظاہر کرنے لگے کہ اگر ایٹم بم پھٹا تو اس سے کرۂ ہوائی میں موجود آکسیجن بھڑک اٹھے گی جس سے پوری دنیا بھسم ہونے کا امکان ہے۔

لیکن دوسری جانب اگر فوری طور پر ایٹم بم نہ بنایا گیا تو جرمنی پہل کر جائے گا، اور وہ بلاتامل یہ بم برطانیہ اور امریکہ کے خلاف استعمال کرے گا۔ گویا ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘ والا معاملہ ہے۔

فلم کے مرکزی کردار اسی زبردست تضاد کا شکار دکھائے گئے ہیں جس نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ پھر بم بن جاتے ہیں (فضائی آکسیجن کو آگ نہیں لگی، الحمد للہ)، اور جب انہیں ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرایا جاتا ہے تو اوپن ہائمر کا سکون غارت ہو جاتا ہے، اور انہیں اپنے تخلیق کے بھیانک نتائج بار بار ستانے لگتے ہیں۔

لیکن دوسری جانب ’اوپن ہائمر‘ میں ایک اور بڑا مخمصہ ہے اور وہ یہ ہے کہ نوجوانی کے دور میں اوپن ہائمر کی ہمدردیاں کمیونزم کے ساتھ تھیں، اس لیے امریکہ میں بہت سے لوگ انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ وہ امریکہ اور امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔

جب مین ہیٹن پروجیکٹ کے چند سال کے اندر اندر سوویت یونین نے بھی ایٹم بم بنا لیا تو اوپن ہائمر اور ان کے ساتھیوں پر انگلیاں اٹھیں کہ انہوں نے بم کا راز اپنے کمیونسٹ ساتھیوں کو دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ معاملہ بھی تھا کہ ٹیم کے بعض ارکان زیادہ طاقتور ہائیڈروجن بم بنانا چاہتے تھے مگر اوپن ہائمر نے انہیں ویٹو کر کے ایٹم بم پر اکتفا کی۔

یہاں بھی مخمصہ تھا کہ ہائیڈروجن بم زیادہ مہلک ہے مگر اسے بنانا زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے اور اوپن ہائمر کی گھڑی کے ساتھ دوڑ لگی ہوئی تھی۔ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ جان بوجھ کر یہ تباہ کن ہتھیار امریکہ کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہ رہے تھے؟

یہی وجہ ہے کہ اوپن ہائمر، جو بم بنا کر ہیرو بن گئے تھے، ان پر مقدمہ چلایا گیا جس میں لیوی سٹراؤس نامی اس زمانے کے وزیرِ کامرس پیش پیش تھے، جو ہر صورت میں اوپن ہائمر کا بت مسمار کرنا چاہتے تھے۔ فلم میں ان کا کردار ’آئرن مین‘ رابرٹ ڈاؤنی جونیئر نے ادا کیا ہے اور اس پر بہترین معاون کردار کا ایوارڈ بھی لے اڑے۔

فلم میں مقدمے کی کارروائی بلیک اینڈ وائٹ میں دکھائی گئی ہے، جسے بم بنانے کی جدوجہد کے رنگین حصوں کے ساتھ بار بار انٹر کٹ کیا گیا ہے، اور کرسٹوفر نولین کے مشہورِ زمانہ انداز میں فلم بار بار ماضی اور حال میں سفر کرتی رہتی ہے۔

سو فلم کا ایک کمال تو اس میں دکھائے گئے بڑے اخلاقی مخمصے ہیں، دوسری جانب امریکی نظامِ حکومت اور فیصلوں پر بھی کڑی تنقید بھی شامل ہے۔

فلم میں کیلین مرفی کی اداکاری کمال کی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صرف آسکرز ہی نہیں، اس سال اداکاری کے تقریباً تمام بڑے ایوارڈز جیتے ہیں، جن میں برٹش اکیڈمی فلم ایوارڈز، گولڈن گلوبز، سکرین ایکٹرز گلڈ ایوارڈ، وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ فلم تکنیکی اعتبار سے بھی شاندار ہے۔ ماضی اور حال، بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین، امید اور خدشہ، دوستی اور دشمنی جیسے متضاد عناصر کو کمال مہارت سے ایک ہی لڑی میں گوندھا گیا ہے۔

مجھے فلم کے ایک پہلو نے فوراً ہی گرفت میں لے لیا۔ نوبیل انعام یافتہ طبیعات دان رچرڈ فائن مین بھی فلم میں دکھائے گئے ہیں، اگرچہ ان کا نام لے کر شناخت نہیں کیا گیا اور وہ چند سیکنڈ کے لیے نظر آتے ہیں۔ لیکن جونہی میں نے مین ہیٹن پروجیکٹ میں شامل ایک سائنس دان کو بونگو بجاتے دیکھا، میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ فائن مین ہیں۔

پھر ایٹمی دھماکے کے دوران فائن مین وہ واحد سائنس دان ہیں جنہوں نے آنکھوں پر حفاظتی چشمے نہیں لگا رکھے۔ فائن مین نے اس کا ذکر اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔

اس سے کرسٹوفر نولین کی باریک بینی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بےنام کردار، جو چند سیکنڈ کے لیے سکرین پر نظر آتا ہے اسے کتنا درست انداز میں دکھایا گیا ہے، تو باقی فلم پر کتنی محنت کی گئی ہو گی۔  

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم