جب ونود کھنہ عروج کے زمانے میں فلم چھوڑ کر چیلے بن گئے

ونود کھنہ اپنے عروج کے زمانے میں بالی وڈ چھوڑ کر گرو رجنیش کے چیلے بن گئے، مگر کیا وہ انڈسٹری میں رہتے تو امیتابھ بچن کو ٹکر دے سکتے تھے؟

ونود کھنہ اور امیتابھ بچن بلاک بسٹر فلم ’مقدر کا سکندر‘ میں (پرکاش مہرا فلمز)

70 کی دہائی میں تین نام بالی وڈ پر راج کر رہے تھے: راجیش کھنہ، امیتابھ بچن اور ونود کھنہ۔ راجیش کھنہ اچانک بھڑکے اور بجھ گئے۔ بعد میں ان کی واپسی ہوئی مگر پہلے جیسا سٹارڈم خواب بن کر رہ گیا، اور مقابلہ بچن اور ونود کے درمیان رہ گیا۔

امیتابھ بچن کے بارے میں ہم بہت کچھ جانتے ہیں لیکن ونود کھنہ ایک بھولا بسرا نام ہے۔ کون یقین کرے گا کہ 70 اور 80 کی دہائی میں کسی کو ’بگ بی‘ کی ٹکر کا سپر سٹار بھی سمجھا گیا تھا اور وہ ونود کھنہ جی تھے۔

کیا واقعی کبھی ونود کھنہ امیتابھ کے لیے خطرہ بنے؟ اس سوال کی طرف ہم بعد میں آتے ہیں پہلے ذرا ونود کھنہ کا ذکر ہو جائے۔

فلم کی دنیا میں کئی مثالیں ایسی ہیں جب فلم بنائی کسی ایک کے لیے گئی لیکن اس سے کلک کوئی دوسرا فنکار ہو گیا۔ ’آنند‘ ہر طرح راجیش کھنہ کی فلم تھی اور وہ پوری فلم میں چھائے رہے لیکن آخر میں امیتابھ بچن کا ایک سین ان کے کیرئیر کو نئی بلندی پر لے اڑا۔

ایسی ہی ایک فلم تھی ’من کا میت۔‘ 1968 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کو سنیل دت نے اپنے بھائی سوم دت کو لانچ کرنے کے لیے بنایا۔ فلم سے سوم دت کا کیریئر تو نہ بنا لیکن ایک نئے لڑکے ونود کھنہ کو موقع مل گیا اور بطور ولن اس کی کارکردگی کو سراہا گیا۔

 ونود کھنہ کرکٹ اور بالی وڈ کے محبت میں برابر مبتلا تھے۔ ’مغل اعظم‘ اور دیو آنند کی ’سولہواں سال‘ دیکھنے کے بعد اس پنجابی نوجوان نے بمبئی جانے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔

من کا میت کے علاوہ ان کی ابتدائی فلموں میں پورب اور پچھم، سچا جھوٹا، آن ملو سجنا، اور میرا گاؤں میرا دیش جیسی فلمیں شامل تھیں۔

ان سب فلموں میں ان کا کردار ولن کے شیطان صفت دوستوں میں سے ایک کا تھا۔ ایسے مختصر کردار کسی نوجوان کے لیے محض یہ اہمیت رکھتے ہیں کہ ان سے اس کا ابتدائی تعارف بنتا ہے۔

وہ انڈسٹری کے مختلف لوگوں سے ملتا ہے اور فلم سے وابستہ لوگوں کے ذہنوں میں ایک ممکنہ آپشن کے طور پر تیرنے لگتا ہے۔ 

1971 میں ریلیز ہونے والی ’ہم تم اور وہ‘ بطور مرکزی کردار ونود کھنہ کی پہلی فلم تھی جس کے بعد گلزار کی ’میرے اپنے‘ آئی۔ اب ایک طرف انہیں فلموں میں مرکزی کردار ملنے لگے تو دوسری طرف وہ ملٹی سٹار پراجیکٹس کا حصہ بننے لگے۔

امتحان، انکار، آپ کی خاطر، خون کی پکار، آدھا دن آدھی رات ان کی کامیاب ترین فلموں میں شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے برعکس، امیتابھ بچن کا کیریئر ’آنند‘ (1971) میں راجیش کھنہ کے ساتھ ان کی شاندار پرفارمنس سے عروج پر پہنچا۔ اس کے بعد زنجیر (1973) آئی اور ’اینگری ینگ مین‘ نے بالی وڈ کو اپنے سحر کا اسیر کر لیا۔

80 کی دہائی کے آغاز میں امیتابھ بچن اور ونود کھنہ دونوں عروج پر تھے۔ اس دوران اچانک ونود کھنہ نے ایک فیصلہ کیا اور انڈسٹری کو چھوڑ کر امریکہ چلے گئے۔

 یہ وہ وقت تھا جب روحانی گرو اوشو رجنیش کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ انہوں نے 70 کی دہائی میں بمبئی ڈیرہ ڈالا جہاں ونود کھنہ، مہیش بھٹ اور پروین بابی سمیت فلم سے وابستہ کئی افراد روحانی تسکین کے لیے ان کے پاس جانے لگے۔ بعد وہ گرو جی نے پونا میں آشرم بنا لیا۔ ونود کھنہ اکثر ان کے پاس جاتے۔

گرو رجنیش ہندو ازم سمیت تمام روایتی مذاہب کے کڑے ناقد تھے اور یہ چیز بھارتی جنتا پارٹی اور ان کے بیچ وجہ نزاع بنی۔ ان کو ٹیکس کے الزامات میں گھیر لیا گیا۔ 1981 میں وہ امریکہ چلے گئے اور وہاں اپنی دکان کھول لی۔

ونود کھنہ پہلے سے جن فلموں میں کام کر رہے تھے وہ مکمل کیں اور سنیاس لیتے ہوئے گرو کے چرنوں میں جا بیٹھے۔ ونود کھنہ وہاں سوامی ونود بھارتی کے نام سے جانے جاتے اور بطور مالی کام کرتے، ایک باغبان جو باغ کی دیکھ بھال کا کام کرتا تھا، پودوں کی کٹائی، تراش خراش، اور نئے بیج بونا اس کے ذمہ تھے۔

اپنے ایک انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ گرو راجنیش کی قربت کا باعث ’موت کی پراسراریت اور اس کا خوف‘ تھا۔ ان کے بقول ’اوشو کے الفاظ نے مجھے ایک ابدی سچائی موت سے متعارف کرایا۔‘

جب امریکہ سے گرو رجنیش کا بوریا بستر گول ہوا تو ان کے ساتھ سوامی ونود بھی لوٹ آئے۔ انہوں نے دوبارہ ونود کھنہ کی تلاش کی، کچھ فلمیں کامیاب بھی ہوئیں لیکن سوامی جی پانچ سال پہلے والی بہار سے محروم ہو چکے تھے۔

امیتابھ بہت ورسٹائل ہیں۔ اتنے مختلف کردار اور ہر کردار میں ایک خاص کشش۔ وہ مزدور بھی بنے ہوں تو ہیرو سے زیادہ ہینڈسم لگتے ہیں۔ نظر ان پر رکتی ہے۔ ونود کھنہ میں ایک خاص اپیل ضرور ہے مگر مسئلہ ہمہ گیر اور تہہ در تہہ کردار نبھانے کا ہے۔

 

اکثر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فلم کی دنیا سے کنارہ نہ کرتے تو امیتابھ بچن کو زبردست ٹکر دیتے۔

لیکن اس کے برعکس ہمارے خیال میں دور دور تک ایسا کوئی امکان نہ تھا۔

اوپر ہم نے 70 کی دہائی میں ونود کھنہ کی کامیاب ہونے والی فلموں کے نام لکھے۔ کیا آپ نے ان میں سے کبھی کسی ایک بھی فلم کا تذکرہ سنا؟

راجیش کھنہ کا ذکر اس لیے ہوتا ہے کہ وہ ٹرینڈ سیٹر تھے۔ یہی بات امیتابھ بچن میں تھی۔ ونود کھنہ سے ایسا کوئی کارنامہ نہیں جڑا۔ اور اگر وہ 70 کی دہائی میں اپنے بھرپور شباب میں ایسا کوئی تیر نہ مار سکے تو 80 کی دہائی میں کیا کر لیتے؟

امیتابھ بچن ’اینگری ینگ مین‘ تھے۔ ان کے مقابلے میں ونود کھنہ محض ایک ہینڈسم ہیرو۔

امیتابھ بہت ورسٹائل ہیں۔ اتنے مختلف کردار اور ہر کردار میں ایک خاص کشش۔ وہ مزدور بھی بنے ہوں تو ہیرو سے زیادہ ہینڈسم لگتے ہیں۔ نظر ان پر رکتی ہے۔ ونود کھنہ میں ایک خاص اپیل ضرور ہے مگر مسئلہ ہمہ گیر اور تہہ در تہہ کردار نبھانے کا ہے۔

ونود کھنہ چلتے بہت خوبصورت تھے لیکن رقص یا اچھل کود ان پہ بالکل بھلا نہ لگتا تھا۔ آپ ونود کھنہ پر فلمائے گئے گیت ذہن میں لائیں، کیا کوئی ایسا گانا بھی ہے جہاں ان کا رقص خوبصورت کمپوزیشن کو مزید دیو مالائی بنانے میں کردار ادا کرتا ہو؟

امیتابھ بچن کے بیسیوں گیت ایسے ہیں جن میں ان کی موجودگی ایکس فیکٹر ثابت ہوئی۔ انہوں نے بھگوان دادا کا سٹائل کاپی کر کے رقص کا ایک خاص انداز متعارف کروایا۔

ایک اداکار بالی وڈ میں گیتوں کے بغیر اپنا بھرپور تاثر کیسے چھوڑ سکتا ہے۔

 ریشما اور شیرا، ضمیر، ہیرا پھیری، خون پسینہ، امر، اکبر، اینتھنی، مقدر کا سکندر اور پرورش جیسی فلموں میں ونود کھنہ اور امیتابھ نے ایک ساتھ کام کیا اور ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔

حریف ہونے کے باوجود دونوں میں ویسی ٹسل نہ تھی جیسی راجیش اور امیتابھ میں تھی۔ راجیش نے کبھی ملٹی سٹارر فلم میں کام نہیں کیا لیکن امیتابھ اور ونود نے درجنوں ایسی فلمیں کیں۔

ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ’مقدر کا سکندر‘ کی شوٹنگ کے دوران امیتابھ بچن کو ونود کھنہ پر ایک گلاس پھینکنا تھا اور ونود کو اس گلاس سے بچنا تھا۔

جیسے ہی ہدایت کار من موہن ڈیسائی نے ایکشن کہا، امیتابھ نے زور سے گلاس ونود کھنہ کی طرف اچھالا۔ ونود بروقت جھک نہ سکے اور گلاس ان کی ٹھوڑی پر جا لگا۔

 ان کے چہرے سے خون کی دھار نکلی اور دونوں کا تعلق بہا لے گئی۔ اس واقعے کے بعد دونوں نے کسی فلم میں ایک ساتھ اہم کردار نہیں نبھائے۔

ولن سے ہیرو بننے والا ہینڈسم ہیرو، گرو رجنیش کا خاص چیلا اور بعد میں بھارتی جنتا پارٹی کا رکن اسمبلی بننے والے سیاستدان ونود کھنہ کی اپنی زندگی ایک فلم جیسی دلچسپ ہے۔

وہی فلم انڈسٹری جس نے انہیں پہچان دی اسے عین عروج کے وقت گرو کے لیے چھوڑ دیا۔ بعد میں بھارتی جنتا پارٹی کے سرگرم رکن بن گئے، وہی جماعت جس نے ان کے گرو کو دیس نکالا دیا تھا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم