پینشن پاکستانی معیشت پر بوجھ کیوں؟

پاکستان نے پنشن نظام میں اصلاحات نہ کیں تو اس کی لاگت اگلے 10 سالوں میں 100 کھرب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔

آٹھ اکتوبر، 2008 کی اس تصویر میں اسلام آباد کے کرنسی ڈیلر پاکستانی روپے کے بنڈل رکھ رہے ہیں (اے ایف پی)

‎پاکستان میں پینشن کا موجودہ نظام طویل عرصے تک چلنے کے لیے پائیدار نہیں۔ مالی سال 2024 میں قومی پینشن کی لاگت 20 کھرب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے اور اگر اس نظام میں کسی قسم کی اصلاحات نہ کی گئیں تو یہی لاگت اگلے 10 سالوں میں 100 کھرب روپے تک پہنچ سکتی ہے۔

یہ لاگت 03-2002 میں 25 ارب روپے تھی جو صرف 20 سالوں میں 15 کھرب روپے سے زائد تک پہنچ گئی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرکار اس حوالے سے کیا اقدامات کر سکتی ہے اور کس طرح اس جال میں سے نکلا جا سکتا ہے۔

سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ ’بین الاقوامی اداروں نے ماضی میں کئی مرتبہ پاکستان کے کمزور پینشن نظام کی نشاندہی کی لیکن پاکستانی حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔

’زیادہ تر سرکاری عہدوں پر غیر فنڈ شدہ پینشن شامل ہیں اور موجودہ ملازمین کی پینشن کی مالی اعانت ٹیکس آمدنی سے کی جاتی ہے۔

’دوسری جانب نجی شعبے کے بعض کارکنوں اور مزدور یونینوں کے اراکین کے لیے فنڈڈ پینشن دستیاب ہیں، تاہم آبادی کا ایک اہم حصہ پینشن کی کوریج سے محروم ہے اور ان کا مکمل انحصار اپنے خاندان کی سپورٹ سسٹم پر ہوتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پینشن فنڈ کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں لیکن پاکستان کے لیے درد سر بن چکا ہے۔ اس کی وجہ منصوبہ بندی  کی کمی ہے۔

’اول تو ہماری حکومت ملازمین کی ماہانہ آمدن سے پینشن فنڈ کی کٹوتی نہیں کرتی، اگر کہیں کٹوتی کرتی بھی ہے تو اس سے کسی ایسے منصوبے میں سرمایہ کاری نہیں کرتی جس سے آمدن پیدا ہو اور خود کار نظام کے تحت ماہانہ پینشن سے زیادہ منافع پیدا ہوتا رہے۔

’جس ملک کی سود کی ادائیگی ٹیکس آمدن سے بڑھ جائے، اس کے سرکاری ملازمین پینشن جیسی عیاشی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں تو آئی ایم ایف کا اعتراض کرنا تو بنتا ہے کیونکہ یہ عیاشی مزید قرض لے کر کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ترقی یافتہ ممالک سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے کاٹی گئی رقم کو پوری دنیا کے بڑے اور منافع بخش منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں۔

’پینشن ریٹائرڈ ملازمین کو مالی طور پر مستحکم رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے لیکن اسے فنڈڈ ہونا چاہیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں فنڈڈ پینشن کے ذریعے ریئل سٹیٹ، شاپنگ مالز، زراعت، تجارت، سٹاک ایکسچینج، بینکس وغیرہ میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور پینشن دینے کے بعد بھی رقم بچ جاتی ہے۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کے مطابق: ’تحریک انصاف کے دور حکومت میں وزیراعظم نے ملائیشیا کی طرز پر پینشن فنڈ کو چلانے کا منصبوہ متعارف کروایا تھا لیکن وہ منصوبہ بھی سیاست کی نظر ہو گیا۔

’ملائیشیا میں ملائیشین پینشن فنڈ کے اثاثوں کی مالیت ایک سال میں چار فیصد سے بڑھ گئی ہے اور اس کے منافعے میں ایک سال میں تین گنا اضافہ بھی ہوا۔

’پاکستان میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سرکار پر پینشن فنڈ بند کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے پینشن اخراجات ترقیاتی، تعلیم اور صحت کے بجٹ سے بھی زیادہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس وقت ملک میں تقریباً 43 پینشن فنڈز کام کر رہے ہیں جن میں تقریباً 61 ارب روپے سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ان میں بڑا حصہ خیبرپختونخوا کا ہے۔‘

ظفر پراچہ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں پینشن فنڈ دو سال سے کام کر رہا ہے۔ وہاں 21 پروگرامز شروع کیے جا چکے ہیں۔

ان کے بقول: ’انڈیا نے 2004 میں پینشن فنڈ قائم کیا تھا اور اسی وجہ سے ان کا نظام پینشن کے معاملات میں بھی خودمختار ہے۔ پنجاب، سندھ ، بلوچستان میں بھی اسی طرز پر پینشن فنڈز قائم کیے جا سکتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے سال تک یہ قانون رائج تھا کہ اگر کوئی شخص ایک سرکاری ملازمت سے وقت سے پہلے ریٹائر ہو کر دوسری سرکاری ملازمت کرتا ہے اور دوسری سرکاری ملازمت کے ختم ہونے پر تیسری ملازمت کرتا ہے تو وہ تین پینشنز وصول کرتا تھا۔

’موجودہ بجٹ میں اس قانون کو ختم تو کر دیا گیا، لیکن اس قانون عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

’سندھ اور بلوچستان میں گھوسٹ ملازمین اور گھوسٹ پینشنزز کا بہت بڑا مافیا موجود ہے۔ اس کے علاوہ دو نسلوں تک پینشن دینا بھی غیر ضروری عمل ہے۔

’جعلی کاغذات دکھا کر اس سہولت کو بھی غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے ریٹائرمنٹ کے 20 سال تک پینشن دی جائے اوراگر ضرورت ہو تو 20 سال مکمل ہونے پر اس کا دوبارہ جائزہ لے لیا جائے۔

’لیکن یہ سہولت بھی چھوٹے گریڈ کے سرکاری ملازمین کے لیے ہونی چاہیے۔‘

سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر میاں نعیم جاوید نے کہا کہ ’ہمارے حکمران آئی ایم ایف کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں جبکہ آئی ایم ایف کا سوال بہت سادہ ہے کہ اگر پیسے لو گے تو واپس کیسے کرو گے؟

’جس ملک کی سود کی ادائیگی ٹیکس آمدن سے بڑھ جائے، اس کے سرکاری ملازمین پینشن جیسی عیاشی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں تو آئی ایم ایف کا اعتراض کرنا تو بنتا ہے کیونکہ یہ عیاشی مزید قرض لے کر کی جائے گی۔

’پینشن کے نام پر ملازمین، گاڑیاں، سکیورٹی گارڈز، گھر یا گھر کے کرائے تک کی سہولتیں بھی دی جاتی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک ملک معاشی بحران سے نہیں نکل جاتا، ان سہولتوں کو محدود کیے جانے کی ضرورت ہے۔

’حکومت نے آئی ایم ایف کو جولائی سے نئے پینشن فنڈ قائم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے اور اب اس پر کس حد تک عمل ہوتا ہے، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت